|

وقتِ اشاعت :   September 11 – 2018

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو بتایا گیا کہ بیرون ملک سے بڑی مقدار میں ہسپتالوں کا فضلہ درآمد کیا جارہا ہے جس سے بچوں کے کھلونے اور گھریلو استعمال کی اشیاء بنائی جارہی ہیں۔

کمیٹی نے حلال اتھارٹی کے آپریشنل نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا،نسٹ یونیورسٹی دل میں ڈالنے والا سٹنٹ آئندہ سال تیار کرے گی جس کی قیمت مارکیٹ سے ملنے والے سٹنٹ سے آدھی ہوگی،کمیٹی نے پی سی آر ڈبلیو آر سے کرپشن پر پکڑے جانے والے ملازمین کو چھوڑنے کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔

کمیٹی نے آئندہ بجٹ میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا بجٹ بڑھانے کی سفارش کی ہے،حلال فوڈ اتھارٹی کے فعال نہ ہونے پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشتاق احمد کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں اکثریتی ممبران نے شرکت کی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت کو بہت نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کا حالیہ بجٹ بہت کم ہے ہم وزیراعظم پاکستان کو خط لکھیں گے کہ آئندہ بجٹ میں وزارت کا بجٹ بڑھایا جائے،کیونکہ موجودہ اور آنے والا دور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا ہے،حکومت اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے،وزارت کی بہتری کیلئے دس سال کا پلان بنایا جائے جس میں ترقی کا روڈ میپ تیار کیا جائے اور سکول اور ریسرچ کے ادارے اس میں شامل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک حلال فوڈ اتھارٹی کام کیوں نہیں کر رہی اگر اس میں کوئی رکاوٹ ہے تو بتایا جائے،لوگوں کو گند کھلایا جارہا ہے۔سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ پورے پاکستان کو معیاری اشیاء کی فراہمی کیلئے صرف 50اینکر ہیں جبکہ ملک کی آبادی22کروڑ ہے۔

چینی کو سفید کرنے کیلئے جو کیمیکل استعمال کیا جارہا ہے اس سے کینسرپھیلتا ہے،اس12 چینی بنانے والی ملیں بند کی گئی تھیں،اس کیلئے میں جیب سے پانچ لاکھ روپے لگائے تھے کیونکہ مالکان عدالت میں چلے گئے تھے،اگر معیار کا تعین کرنے والا ادارہ کام نہیں کرسکتا تو عوام کے اربوں روپے کیوں ضائع کئے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر سولر پینل باہر سے آئے ہیں تو ہمارے ریسرچ اداروں کا کیا کام ہے۔سینیٹر صابر شاہ نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 200 سے 250سکول بند پڑے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے،ہمیں اپنے بچوں کو جدید تعلیم دلوانی چاہئے اور ریسرچ کرنے کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔

وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ بیرون ملک سے بڑی مقدار میں ہسپتالوں کا فضلہ درآمد کیا جارہا ہے اور لاہور میں شاہدرہ پر فیکٹریاں لگی ہیں جو اسی فضلے سے بچوں کے کھلونے اور گھریلو استعمال کی اشیاء تیار کرتے ہیں،بہت سے امپورٹر نے اس حوالے سے حکومت سے امپورٹ کرنے کی اجازت لی ہے۔

ہم نے79.85 ملین روپے کی رقم سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے جس سے ہسپتالوں کے فضلے میں جراثیم کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔حکام نے بتایا کہ شوگر ملوں میں چینی کو سفید کرنے والا کیمیکل کینسر پھیلاتا ہے اس پر ملوں کو بند کیا گیا لیکن انہوں نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا۔

انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ یہ شوگر ملیں بڑے لوگوں کی ہیں۔حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ رمضان بازار کے دوران مختلف سیمپل لئے گئے تھے،10 کیسز ایسے سامنے آئے جو بڑی کمپنیوں کے تھے اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی تھی،سائنس فاؤنڈیشن 300بچوں کو سکالر شپ دیتی ہے اور ان کو باہر کے دورے بھی کروائے جاتے ہیں۔

نیشنل سائنس کالج بنایا جارہاہے جس کے لئے زمین کی خریداری کرتی ہے۔حکام نے بتایا کہ صاف پانی کیلئے تھر،چولستان ،چاغی میں منصوبے لگائے گئے ہیں،صاف پانی کیلئے نیوی کو 6000 گیلن پانی روزانہ صاف کرنے کیلئے گوادر میں سولر سے چلنے والا منصوبہ دیا گیا ہے۔

سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کمیٹی کو بتایا کہ حلال فوڈ اتھارٹی ابھی آپریشنل نہیں ہوئی،ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی مسئلہ بنا ہوا ہے،ڈی جی کا جاری جوائنٹ سیکرٹری کے پاس ہے ابھی منظوری ہوئی ہے کہ ڈی جی حلال فوڈ اتھارٹی21گریڈ کا ہوگا۔