ڈیرہ بگٹی میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث ایک روزمیں دو خواتین زچگی کے دوران جاں بحق ہوگئیں ،رواں ماہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 6 جبکہ گزشتہ سات ماہ کے دوران جاں بحق خواتین کی تعداد 21تک پہنچ گئی۔اطلاعات کے مطابق ضلع ڈیرہ بگٹی میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث دوران حمل خواتین اور نومولودبچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔
گزشتہ روز پھر ایک حاملہ خاتون جسے کشمور منتقل کیا جارہا تھا ،راستے میں دم توڑ گئیں۔رواں ماہ یہ خواتین اور بچوں کی ہلاکت کا چھٹا جبکہ گزشتہ سات ماہ کے دوران اکیسواں واقعہ ہے ۔ ڈیرہ بگٹی میں رپورٹ ہونے والے واقعات یقیناًدل دہلانے والے ہیں مگر افسوس اس قدر بے حسی ہے کہ اس معاملے کا نوٹس ہی نہیں لیاگیا۔
محکمہ صحت کی جانب سے چار لیڈی ڈاکٹرز کو تعینات کیا گیا ہے مگر اب تک انہوں نے وہاں رپورٹ نہیں کی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ ڈاکٹر اتنے بااثر ہیں کہ ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسری جانب سیاسی، قبائلی ، سماجی رہنماؤں سمیت سول سوسائٹی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بھی ردعمل نہیں آیا اگر یہ کہاجائے کہ ان خواتین کو موت کی آغوش میں دھکیلا جارہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
ڈیرہ بگٹی بلوچستان کا وہ علاقہ ہے جس کی پہچان یہاں کی قدرتی گیس ہے اور آج اس قدرتی نعمت سے پورا پاکستان فائدہ اٹھارہا ہے لیکن اس علاقے کے اپنے مکین اس سے محروم ہیں اور لکڑیاں جلانے پرمجبورہیں۔ گیس اس علاقے کے بدنصیب عوام کو میسر تک نہیں مگر بھلا ہو اس ملک کے حکمرانوں کا جن کی نظر بلوچستان کے ان معاملات کی طرف جاتی ہی نہیں ۔البتہ جھوٹے اعلانات، جھوٹے دعوے کہ یہاں دودھ اورشہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ، جبکہ حقیقت مکمل اس کے برعکس ہے۔
بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں زچگی کے دوران اموات رپورٹ ہورہی ہیں اندرون بلوچستان میں نہ جانے اب تک کتنی اموات ہوئی ہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے ۔گزشتہ حکومت نے بلوچستان کی بجٹ میں ایک بڑی رقم صحت کیلئے مختص کررکھی تھی تاکہ اس محکمہ کی حالت زار کو بہتربنایاجاسکے۔
المیہ یہ ہے کہ بھاری بھرکم بجٹ کے باوجود محکمہ صحت کی پانچ سالہ کارکردگی کھل کر سامنے آرہی ہے، ماسوائے ایک ٹراما سینٹرکے جو کوئٹہ سول ہسپتال میں قائم کیا گیا ہے مگر دوسری طرف اسی ہسپتال میں آج بھی صحت کی سہولیات موجود نہیں، مشینری ، آلات، ادویات سمیت ڈاکٹروں اور اسٹاف کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
محکمہ صحت کو 80 فیصد بجٹ جاری کرنے کے بعد ہونا یہ چاہیے کہ وہ سہولیات اور کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ماہرین کے ساتھ ملکر ایک بہترین پروگرام تشکیل دیتے جس سے ایسے واقعات کی روک تھام کی جاتی اور وبائی امراض خسرہ، پولیو، کانگو سمیت دیگر جان لیوا وائرس سے بچنے کیلئے پالیسی مرتب کی جاتی مگر اس جانب خاص توجہ نہیں دی گئی۔
حالت یہ ہے کہ ہمارے یہاں اقرباء پروری اور اپنوں کو نوازنے کا جو سلسلہ ہے اس کی وجہ سے آج بلوچستان کے غریب عوام بہترین علاج ومعالجے سے محروم ہیں جس کی وجہ سے معصوم جانیں ضائع ہورہی ہیں۔ کوئٹہ سول ہسپتال میں سہولیات کے فقدا ن سے اندرون بلوچستان کے علاقوں کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
بلوچستان کے سادہ لوح عوام اللہ کے سہارے اپنی زندگی گزاررہے ہیں اور خطرناک بیماریوں کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ محکمہ صحت نے عوام کو بے یار ومدد گار چھوڑ دیا ہے۔ بلوچستان حکومت کے ذمہ داران جب تک محکمہ صحت سے اس کی مستند سالانہ رپورٹ طلب نہیں کرینگے یہ مسئلہ مزید سنگین شکل اختیار کرتا جائے گا۔
افسوس کہ آج بھی بلوچستان کے عوام معمولی بیماریوں کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کا کوئی والی و وارث نہیں۔موجودہ حکومت کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ محکمہ صحت کی کارکردگی کاہنگامی جائزہ لیکر تمام ذمہ داران کو طلب کرے اور ان سے ان کی کوتاہیوں کا سبب پوچھے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں ۔
نیز بہترین ماہرین کی خدمات لے کر محکمہ صحت کے حوالے سے پروگرام تشکیل دیا جائے اور پورے بلوچستان میں اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ بروقت عوام کو صحت کی سہولیات فراہم ہو سکیں اور اس کی نوبت ہی نہ آئے کہ بڑی تعداد میں معصوم جانیں ضائع ہوں۔
اب یہ ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ محکمہ صحت کے متعلق نہ صرف بجٹ پر غوروخوص کرے بلکہ جہاں پیسے خرچ ہورہے ہیں ان کے آڈٹ کیلئے مانیٹرنگ پالیسی بنائے تاکہ عوام کا پیسہ کرپشن کی بجائے ان پر خرچ کیاجاسکے۔
ماضی میں جس طرح ہوتا رہا ہے وہ حالات سب کے سا منے ہیں آج بلوچستان سے اٹھنے والی ایسی خبریں صوبے کیلئے بہتر نہیں بلکہ ان سے ایک غلط تاثر جائے گا کہ یہاں کے عوام آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ دوسری جانب بڑے بڑے منصوبے بنائے جارہے ہیں ۔
ان تمام اثرات کو زائل کرنے کیلئے حکومت سنجیدگی سے صحت سمیت تمام شعبوں پر توجہ دے تاکہ آنے والے وقت میں صوبہ کے متعلق حوصلہ افزاء خبریں سامنے آسکیں جس سے حکومت کا ایک بہتر امیج قائم ہو اور عوام بھی حکومت کے فراہم کردہ سہولیات سے استفادہ کریں اور غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں کو کوئی موقع ہاتھ نہیں آئے۔
حکومت کو چاہئے ڈیرہ بگٹی میں ہونے والی زچگی کے دوران اموات کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے اور ساتھ ہی دیگر اضلاع میں محکمہ صحت کے اداروں کی کارکردگی کوجانچنے کیلئے کمیٹی تشکیل دیکر رپورٹ طلب کرے تاکہ بلوچستان میں جو خطیر رقم صحت کیلئے مختص کی گئی ہے اس کی بہتر مصرف کو یقینی بنایا جاسکے نیز یہ بھی پتہ چلے یہ رقم کہاں خرچ ہوئی ہے اور عوام کو کس حد تک صحت کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔