کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(پجار) کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا تاسیس 51 سال پہلے 25 نومبر 1967 کو اس وقت ہوا جب نو آبادی دنیا انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں تھا اور محکوم اقوام اپنے بقاء کی جنگ کیلئے سر بہ کف تھے۔
بلوچ طلباء نے انقلابی دنیا سے طاقت و توانائی لیتے ہوئے اپنے نیم قبائلی و نیم جاگیرداری پسماندہ سماج کے اندر قومی جبر و استحصال کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے طبقاتی فتح کا بیرک بلند رکھا۔ بلوچ طلباء کو متحد کرکہ ان کی نظریاتی و فکری تربیت کی اور بلوچ قوم کو ایک ترقی پسند قیادت مہیّا کی۔
بی ایس او محض تین ریاستوں میں منقسم بلوچ وطن تک محدود نہ رہی بلکہ عالمگیر سطح پر بھی سامراج مخالف سرکشی اور طبقاتی یکجہتی کا ثبوت اپنے لہو سے پیش کیا اور آج تاریخ اس عظیم انقلابی تنظیم کو فخر کی نگاہ سے یاد کرتی ہے۔
طلباء تنظیم ہوتے ہوئے بی ایس او کو ہمیشہ ماس پارٹی کا بوجھ بھی اْٹھانا پڑا ہے اور اس تنظیم کو قومی پارٹی کی تشکیل کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس جدوجہد میں بی ایس او کا ہر میدان میں فتحیاب و سرخرو ہونے کا راز اس کے سائنسی نظریات ہی رہے ہیں جو تمام پرکٹھن راہوں کو عبور کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
نظریاتی علم وہ ہتھیار ہیں جو تاریک راہوں میں بھی روشن دیئے جلاتے ہیں اور یہی فخریہ تاج بی ایس او کا زیور ہے۔ بدقسمتی سے ماضی قریب کی قیادت کا نظریات سے انحراف نے بی ایس او کو شدید بحرانات سے دوچار کر دیا اور آج بی ایس او تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔
طلباء اپنے حقوق سے نالاں ہیں، اور تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ نوجوانوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ آئے روز طلباء کے ساتھ زیادتیاں، انتظامیہ کی جانب سے طلباء کی حق تلفی، فیسوں میں بے دریغ اضافہ، کرپشن و اقرباء پروری، سہولیات کا فقدان، تعلیمی اداروں میں ایڈمنسٹریشن کا آمرانہ رویّہ اور ایسے بے شمار مسائل ہیں جن کا طلباء کو اس وقت سامنا ہے اور اسٹوڈنٹس کی حیثیت ہر سطح سے نیچے گر کر فقط سر جھکائے ہر بد کاری کو قبول کرنے والی روبوٹ کی سی رہ گئی ہے۔
طلباء یونین پر پابندی بدستور قائم ہے اور یہاں تک کہ کیمپس میں علمی و سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ سامراجی یلغار اور مسلسل جبر و استحصال نے بلوچ عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ بلوچستان اس وقت انتہاپسندی اور موقع پرستی کی دلدل میں شدید پرانتشار کیفیت میں مبتلا ہے، اور نوجوان سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں گمراہی، مایوسی اور بے راہ روی کی مہلک رجحانات کا شکار ہو چکے ہیں۔
نوجوان نسل ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں کہ اسے اپنا مستقبل ہر طرح سے تاریک نظر آرہا ہے۔ ہر طرف مایوسی ہے۔ تمام سیاسی قوتیں نوجوانوں کو اپنے ذاتی مفادات کیلئے فقط آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
نوجوان نسل کی کہیں پر بھی حقیقی نمائندگی وجود نہیں رکھتی اور ہر قوم پرست پارٹی سوائے مایوسی پھیلانے اور مزید تاریکیوں میں اضافہ کرنے کے اور کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہاکہ ایسے میں تاریخ نے یہ عظیم بوجھ نوجوان نسل کے اپنے سر ہی ڈالا ہے کہ وہ قدم بڑھائیں اور اپنے مستقبل کیلئے فیصلہ کْن کردار ادا کریں۔ ایسے وقت میں بی ایس او ہی وہ واحد ادارہ ہے جس کا نصف صدی کا تجربہ اور نظریہ نوجوان نسل کو ایک بار پھر تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی راہوں پر گامزن کر سکتا ہے۔ موجودہ وقت جو تاریک ہے اس میں روشنی بھرنے کا ضامن پھر بی ایس او ہی ہے۔
بی ایس او کا نظریاتی کارواں جو ایک طویل مدّت سے بی ایس او کو نظریاتی بنیادوں پر تعمیرِ کرنے کیلئے کوشاں ہے، اب ایسے مرحلے میں آن پہنچے ہیں کہ اس تنظیمِ نو کو حتمی شکل دے دیں۔ بی ایس او کی اصل طاقت جو اس کی سائنسی نظریات میں پیوست ہے اسے بحال کرنے کا وقت آ چْکا ہے اور تقسیم در تقسیم کے مکروہ کرداروں کو شکست دیکر بی ایس او کو تمام سابقوں اور لاحقوں سے پاک اس کی حقیقی شکل میں تشکیل و انضمام ہمارا بنیادی عزم ہے۔
نوجوان طاقت جو منتشر ہو چکا ہے اسے منظم کرنے کیلئے بی ایس او کا اکیسواں قومی کونسل سیشن “بی ایس او کے نظریات کے دفاع میں” بی ایس او کی 51ویں یومِ تاسیس یعنی 25 نومبر کو کوئٹہ کے مقام پر مرکزی آرگنائزر ظریف رند کی زیرِ صدارت منعقد ہونے جا رہا ہے جس میں ملک بھر سے ممبران شرکت کریں گے اور ساتھ ہی بی ایس او کے سابقہ بزرگ راہنماء اور خطّہ کے ترقی پسند قائدین خصوصی طور شریک ہوں گے۔
بی ایس او کا اکیسواں قومی کونسل سیشن طلباء سیاست میں سنگِ میل ثابت ہوگا اور خطّے کی سیاست پر سنہرے اثرات ڈالے گا۔ انکا مزید کہنا تھاکہ 25 تا 26 نومبر کو بند اجلاس ہوگا جبکہ 27 نومبر کو نء قیادت کی تقریبِ حلف برداری، جلسہ عام اور بلوچی موسیقی دیوان بھی منعقد ہوگا۔
ہم تمام بلوچ طلباء کو صدا لگاتے ہیں کہ وہ اپنے قومی میراث بی ایس او کے کارواں میں شامل ہو کر اپنی کھوئی ہوئی طاقت کے حصول کی جدوجہد کا حصہ بنیں اور طلباء حقوق کا بھرپور دفاع کریں۔ ساتھ ہی تمام ترقی پسند عوام سے التجا کرتے ہیں کہ بی ایس او کے نظریاتی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں ہمارے معاون و مددگار بن کر اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔