|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2018

مکران کے ساحلی علاقے ’’دران‘‘ جیوانی، ’’تاک‘‘ اورماڑہ اور پاکستان کے سب سے بڑا جزیرہ ’’اسٹولہ‘‘ کو گرین ٹرٹل کے لئے محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ ماہرین حیاتیات کی نظر میں یہ علاقے آبادی سے ؂دور ہونے کی وجہ سے سبز کچھوؤں کی افزائش نسل کے لئے محفوظ زون ہیں۔

دوسری جانب معدوم نسل کے کچھوؤں کی مردہ حالت میں پایا جانا بھی ایک تشویش ناک امر ہے۔گوادر کے مغربی ساحل ’’پدی زر‘‘ میں ایک مردہ کچھوا پایا گیا جو کہ نایاب نسل کے سبز کچھوے( Turtle sea Greanتھا۔ اس سے پہلے بھی مکران کے ساحلی علاقوں میں کچھوے مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سبز کچھوے کی وزن 100 کلوگرام کے لگ بھگ ہے، اور یہ روزانہ 20 سے 40 کلومیٹر کا سفر کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کچھوؤں کے نیسٹنگ ایریا بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ اس وقت کچھوے کی نسل دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہے۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ مکران کے ساحل کے گرم پانیوں میں سبز کچھوے کی تحفظ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے جار ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سبز کچھوے اورماڑہ کے ساحلی علاقہ ’’تاک‘‘، جیوانی کے ساحل ‘‘دران‘‘ اور اسٹولہ جزیرے میں انڈے دیتے ہیں اور ان کے نیسٹ انہی ساحلی خطے میں موجود ہیں۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر حیاتیات اور ڈپٹی ڈائریکٹر انوائرنمنٹ جی ڈی اے عبدالرحیم کا کہنا ہے کہ گوادر کے مغربی ساحل پدی زر میں مردہ حالت میں پائے جانے والی کچھوے کی موت پلاسٹک کے جال میں پھنس جانے سے ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مکران کے ساحلی علاقوں میں زیادہ تر کچھوے پلاسٹک کے جال میں پھنس کر موت کے شکنجے میں چلے جاتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ پلاسٹک کے جال ممنوع ہونے کے باوجود ماہی گیر شکار کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ جن کی زد میں آکر نایاب نسل کے کچھوؤں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماہی گیروں میں شعور کی کمی ہے۔ اگر کچھوے ماہی گیروں کے جال میں پھنس جائیں تو ماہی گیروں کو چاہیے کہ وہ اس کو آزاد کرکے واپس سمندر میں چھوڑ دیں۔ گوادر کے مقامی رائٹر عبدالحلیم کا کہنا ہے کہ گوادر کا ساحل آبی حیات کے لئے ایک زرخیز ساحل ہے جہاں مختلف اقسام کے نایاب سمندری مخلوق پائے جاتے ہیں، ان کے مطابق یہاں کے ایکوسسٹم میں سبز کچھوے اور دیگر سمندری مخلوق پائے جاتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 4600 کچھوے ماہی گیروں کی جانب سے دوران شکار پلاسٹک کے جالوں اور ہک میں پھنس کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور 1990 کے بعد دوران شکار جالوں کی زد میں آکر کچھوؤں کی موت میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ماہرین اس کی وجہ پلاسٹک کے جالوں کا بے جا استعمال سمجھتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوے سمندری حیات کے لئے اہم ہیں، جبکہ ساحل میں گندگی اور پلاسٹک کے تھیلوں اور جالوں کی وجہ سے کچھوؤں کی موت بھی واقع ہورہی ہے۔ کیونکہ کچھوے پلاسٹک کے تھیلوں کو جیلی فش سمجھ کر کھاجاتے ہیں جوکہ ان کے معدے میں پھنس جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوے سمندر کے اندرموجود غیر ضروری گھاس اور دیگر مخلوق کو کھا جاتے ہیں جس کی وجہ سے سمندر صاف رہتا ہے جوکہ ایکوسسٹم کے لئے کافی اہم ہے۔ جبکہ ماہرین کا کہنا کہ سمندر میں گندگی کی وجہ سے جیلی فش کی افزائش نسل میں اضافہ ہورہاہے۔ کیونکہ جیلی فش آکسیجن کے بغیر گندگی اور آلودہ پانی میں تیزی کے ساتھ افزائش نسل پاتا ہے جبکہ کچھوے جیلی فش کو کھا کر سمندر کی ایکو سسٹم کو بہتر بناتاہے۔