نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو بہت کم جذباتی ہوتے ہیں۔انہوں نے گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ملکی سطح پر اپنی پہچان ایک نرم گو اور مستقل مزاج سیاستداں کے طور کرایا ہے جس کی وجہ سے ان کی مداحوں میں کافی اضافہ ہوا تھا۔
عموماً ہمیں جب اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوتا تو زیادہ تر لوگ میر حاصل خان کی برد باری کی تعریف کرتے نظر آتے ،میر صاحب کی تعریفیں غیروں سے سن کر ہم بھی نہال ہو جاتے اسکی وجہ یہ ہے کہ میر صاحب کا تعلق جھاؤ سے ہے ہمارا بھی جھاؤ سے ہے ۔اب لگ ایسا رہا ہے کہ میر صاحب کے مزاج میں پہلے کی نسبت زیادہ ترشی آئی ہے ،انکے غصے سے بھرا روپ پہلی بار اس وقت کھل کر سامنے آیا جب انہوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نو منتخب چیئرمن سینٹ کو کھری کھری سنا دی بلکہ فرط جذبات میں یہ تک کہہ گئے کہ مجھے ایوان سینٹ میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔
یقین مانیں اس وقت تقریر سننا ہی تھا جھٹ سے میر صاحب کو جزباتی انداز میسج کر کے انکی تقریر کو ۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا ہمیں مایوسی تب ہوئی جب اس تقریر کے چند گھنٹے بعد میر صاحب کوچیئرمن سینٹ کے دفتر میں چیئرمین سینٹ کے رو برو بیٹھتے خوش گپیاں مارتے دیکھا۔ اس ملاقات میں میر رحمت صاحب بھی شانہ بشانہ براجماں تھے ،۔۔۔۔۔یہ مشہور زمانہ فوٹو اگلے دن تین کالم خبر کے ساتھ کم و بیش بلوچستان کے تمام اخبارات کی زینت بنی ،یہ فوٹو چھپنا ہی تھا ہمارے جیسے فارغ لوگوں کیلئے موضوع بحث بن گیا۔ اس وقت میرا موقف یہی ہوا کرتا تھا کہ میر حاصل خان کو رحمت بلوچ صاحب نے اپنے کسی خاص ‘‘مقصد’’ کیلئے چیئرمین سینٹ سے ملاقات کرائی ہے۔۔۔۔۔
ایک وقت میں میر رحمت صاحب کے نئی بننے والی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے کرتا درتا ؤں سے قربت سے متعلق نیشنل پارٹی کے دوست محتاط انداز میں خدشات کااظہار کرتے رہتے تھے۔رحمت بلوچ کی مبینہ قربت سے نہ صرف نیشنل پارٹی کو تحفظات تھے بلکہ باپ کے ایک سر کردہ رہنماء نے آف دی ریکارڈ یہ کہہ دیا تھا مجیب الرحمان محمد حسنی اور رحمت بلوچ غیر مشروط ہمیں جوائن کرنا چاہتے ہیں لیکن رحمت بلوچ کیلئے ‘‘اوپر ‘‘ سے این او سی نہیں مل رہی۔۔۔۔جس ‘‘بھائی صاحب ‘‘ کی ہاتھ ‘‘شفقت ‘‘ رحمت صاحب کے سر ہوا کرتا تھا انتخابی معرکہ سے قبل انہوں نے اپنا موبائل فون بھی بند کر دیا تھا۔
یو ں بلوچستان عوامی پارٹی رحمت بلوچ کی مایہ ناز شخصیت سے محروم رہ گئی وگرنہ رحمت بلوچ صاحب کی شکل میں پنجگور سے ایک تجربہ کار سیاستداں میسر ہونا تھا ۔بات میر حاصل خان کی ہورہی تھی ،درمیان میں عزیز میر رحمت بلوچ موضوع بن گئے۔۔۔
تو عرض یہ کر رہا تھا کہ حالیہ دنوں میں میر صاحب نے شاید نصیرآ باد میں ایک بار پھر ایک دھواں دار تقریر کی تھی جس کا سوشل میڈیا میں بڑا شور مچا ہوا ہے ،میر صاحب کی یہ تقریر اخبارات میں اس لئے جگہ نہ پا سکی کیونکہ سیاستدانوں کی طرح میڈیا بھی خان صاحب کی نئے پاکستان کی سنسر شپ کے شکنجے میں ہے۔۔میر صاحب نے نصیر آبادکی تقریر میں جو کچھ کہا انکا لفظ بہ لفظ صداقت کی موتیوں سے پرویا ہوا ہے انکار کی گنجائش بہت کم ممکن ہے ۔۔۔۔
اگر میں غلط نہیں تو نیب مشرف کے دور میں بنا یا گیا تھا مقصد یہ تھا کہ بد عنوان و کرپٹ سیاستدانوں کا ‘‘احتساب ‘‘ کیا جا سکے،لیکن اکثر سیاستدان اس ادارے کو مخالفین کو بلیک میل کرنے اور زیر دست لانے کا ہتھیار مانتے اور بولتے ہیں۔۔۔ نیب کے حوالے سے سیاستدانوں کے شدید تحفظات کے باوجود ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس ادارے کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتے رہے ہیں ۔نواز شریف کے دور حکومت میں نیب کی ساری توانائیاں پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوتی رہیں ، اب وہی سب کچھ ن لیگ کے خلاف ہورہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ ادارہ واقعی مشرف نے بلیک میلنگ کیلئے بنائی تھی تو مشرف کے بعد دو حکومتوں نے اس ادارے کو ترامیم اور اصلاحات کے ذریعے صاف شفاف کیوں نہیں بنا یا ؟۔ اس کے علاوہ میر صاحب نے کچھ سیاستدانوں کو ‘‘سلیوٹ ‘‘مارنے کا شگان(طعنہ) مارا ہے۔۔۔
یہاں پر بھی گزارش یہی ہوسکتی ہے کہ جناب ‘‘سلیوٹ’’ کرنے کی روایت سب سے زیادہ 2013 میں عروج پا یا تھا اس وقت آپ کی جماعت کے لوگ بھی اس قطار میں کھڑے تھے ساری دنیا کو لائن حاضر نیشنل پارٹی کے لوگ نظر آرہے تھے لیکن لیڈر شپ کو نہ جانے کیوں یہ سب نظر نہیں آرہا تھا ،قیادت کی اس وقت کی خاموشی نیم رضامندی تصور نہ کی جائے تو کیا اسے کیا نام دیا جائے ؟151۔ نیشنل پارٹی کے دوستو ناراضگی سے قطع نظر میں ذاتی طور پر ابھی بھی یہ مانتا ہوں کہ نیشنل پارٹی اپنی راہیں صحیح سمت موڑ دے تو یہ جماعت حقیقی معنوں میں بلوچوں کی جماعت بن سکتی ہے لیکن کیا ،کیا جائے ماضی قریب میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔
نیشنل پارٹی کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی
وقتِ اشاعت : October 11 – 2018