کراچی: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنمااورسابق سینیٹر نوابزادہ لشکری رئیسائی نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کو آج بھی کالونی کی طرح ٹریٹ کررہی ہے۔
سی پیک منصوبے کی اب تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی،اس کی مدد میں بلوچستا ن کو ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملی۔سی پیک منصوبے کی مدمیں اگر52بلین ڈالرکاپیکیج ملا ہے تو اسے منظرعام پر لایاجائے۔ہرالیکشن کے بعد ملک کے منتخب وزیراعظم کوکشکول دے کر بھیک مانگنے کیلئے بھیج دیاجاتاہے،بلوچستان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وفاقی حکومت اقدامات اور جبری گمشدگیوں میں ملوث ریاستی اداروں کے افراد کیخلاف کارروائی کرے۔
منگل کوکراچی پریس کلب کے دورہ کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بی این پی رہنمالشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگوں کو دیوارسے لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔سیاسی قوتوں کوکام کرنے نہیں دیاجارہاہے،اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان میں عام انتخابات سے قبل مصنوعی سیاسی جماعت بنادی،صوبے کو اس سیاسی جماعت کے حوالے کردیاگیا۔
بلوچستان کے معدنی ذخائراور ساحلی پٹی پرحکمران جماعت کاقبضہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان 1940کی قراردادکے مطابق فیڈریشن کا ایک یونٹ ہے۔بلوچستان کے عوام مشکل حالات سے دوچار ہیں۔
بلوچستان سے قدیمی روایات کا خاتمہ کیاجارہاہے،بلوچستان میں لوگوں کوآزادی حاصل نہیں۔بلوچستان میں سیاسی جماعتیں صوبے کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کیلئے آزادانہ طریقے سے کام کرناچاہتی ہیں لیکن انہیں آزادنہیں چھوڑاجارہاہے۔
لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ 70سال سے بلوچستان اور صوبے کے عوام کا استحصال کیاجارہاہے،ان دکھوں کاازالہ ان پانچ سال میں ممکن نہیں ہے،اگرحکومت بلوچستان کے مسائل حل چاہے تو انہیں اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کی ضرورت ہوگی،ان اداروں کی اجازت کے بغیرحکومت کچھ نہیں کرسکے گی۔
پاکستانی قوم نے کبھی حکومت نہیں بنائی،انہیں ہمیشہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایاگیا۔سی پیک پربات کرتے ہوئے نوابزادہ لشکری رئیسائی کا کہنا تھا کہ سی پیک معاہدہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک شخص ڈکٹیٹرپرویز مشرف نے کیاتھا۔
سی پیک منصوبے پر ابتک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی،چین سے اس منصوبے کا معاہدہ کرنے والاشخص دبئی چلاگیا اور ایسٹ انڈیاکمپنی کی شکل میں سی پیک منصوبہ چھوڑگیا۔ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک اور گوداربلوچستان کی ملکیت ہیں۔
2016میں اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک قراردادپردستخط کئے تھے،اس میں اتفاق کیاگیاتھا کہ گوادرکوآئینی ترامیم کرکے بلوچستان حکومت کے سپردکیاجائے گا۔
آئینی ترمیم کی سخت ضرورت ہے تاکہ بلوچستان کے عوام کی مرضی کے مطابق گوادرکے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام اور بلوچستان حکومت کرسکے۔18ویں ترمیم کے حوالے سے لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ آج18ویں ترمیم کے رول بیک کی باتیں ہورہی ہیں۔جب 18ویں ترمیم آئی تو اس وقت این ایف سی ایوارڈمیں بلوچستان کوچھوٹاسا حصہ ملا۔
آج اس ترمیم کی واپسی کی باتیں گردش کررہی ہیں۔ کہا جارہاہے کہ صوبوں نے 18ویں ترمیم کے بعد کوئی تعمیری صلاحیت کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیاہے۔انہوں نے سوال کیا کہ وفاق بتائے پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے کو کس نے تباہ کیا، کیا اس کاذمہ داربلوچستان ہے؟
لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ داربلوچ سرداروں کوقراردیاجاتاہے۔ہم پوچھتے ہیں کراچی میں کونسے سردارہیں جو یہاں ٹارگٹ کلنگ اور لسانی فسادات میں58ہزارافرادمارے گئے۔کراچی کا سیاسی تشخص ختم کردیاگیا۔
کراچی شہر کابڑامسئلہ یہ ہے یہاں کے سیاسی فکرتقسیم کردیاگیا جو سندھ کیلئے بڑانقصان ہے۔مسنگ پرسن کے حوالے سے لشکری رئیسانی کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان کوبلوچستان نیشنل پارٹی نے 6نکات پیش کئے ہیں۔
لاپتہ افراد کی برآمدگی اولین ترجیح ہے، حکومت جبری گمشدگیوں کے معاملے کی تحقیقات کرے اور ان میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کرے۔آج بھی بلوچستان سے بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں۔
ماماقدیرنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے تین ہزارکلومیٹرکالانگ مارچ کیا،آج بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سیکڑوں کارکنان لاپتہ ہیں۔حکومت معلوم کرے اگرلاپتہ افراد زندہ ہیں تو انہیں ان کے اہلخانہ سے ملایاجائے اور مرچکے ہیں توان کی لاشیں ان کے ورثاء کو دی جائیں۔
ڈیمز کے معاملے پر ہم نے 6نکات میں نئے ڈیمزبنانے کا مطالبہ کیاہے۔اگرحکومت بڑے ڈیمز نہیں بناسکتی تو بلوچستان میں چھوٹے ڈیمزبنائے جائیں تاکہ پانی کا مسئلہ حل ہوسکے۔افغان مہاجرین کی40لاکھ کے قریب آبادی پاکستان پر عرصہ درازسے بوجھ بنی ہوئی ہے۔
بلوچستان میں افغان مہاجرین کی بڑی تعدادرہائش پذیر ہے جوصوبے میں تمام ترسہولیات بھی حاصل کررہی ہے۔بیشترافغان مہاجرین دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی ملوث نکلتے ہیں۔وفاقی حکومت افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کیلئے موثرحکمت عملی اپنائے اور ان کی جلدواپسی ممکن بنائے۔