|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2018

کوئٹہ : بلوچستان کے مختلف اضلاع سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ کا کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ ۔ مظاہرے میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں و کارکنوں نے شرکت کی ۔ 

مظاہرے سے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے شبیر بلوچ، اعجاز بلوچ، عامر بلوچ، مہر گل مری، علی اصغر بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، سعداللہ بلوچ، عطاء اللہ بلوچ، مشتاق بلوچ کے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ انتظامیہ ہمیں پر امن احتجاج سے روک رہی ہے جو قابل مذمت ہے ۔ 

ہم اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کرنا چاہتے تھے مگر حکومت کی ہدایت پر ہمارے راستہ میں رکاوٹیں قائم کرکے ہمیں پریس کلب تک محدود کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھاکہ مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افراد پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں ملکی قوانین کے تحت سزا دی جائے ۔ 

ان کاکہنا تھا کہ مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے افرادکے کیسز سپریم کورٹ ، بلوچستان ہائی کورٹ سمیت ہیومن رائٹس کمیشن میں زیر سماعت ہیں تاہم ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہورہی ہے ۔

مظاہرے سے رکن بلوچستان اسمبلی شکیلہ نوید دہوار، بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے نصراللہ بلوچ، آغا خالد شاہ دلسوز ودیگرکا کہنا تھاکہ پانامہ کیس کی طرح لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق عدالتوں میں زیر سماعت کسیز بھی انتہائی اہم نوعیت کے ہیں۔

اگر مسائل عدالتوں اور ملکی اداروں کے ذریعے حل نہیں ہوتے تو سڑکوں پر احتجاج کرنا لواحقین کا حق ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم چایئے کشمیر میں ہو کے پی کے ، سندھ میں ہو یا بلوچستان کے گوادر یا تربت میں تمام کا درد ایک ہی جیسا ہے ۔رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت سے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھاتے ہوئے لاپتہ افراد کی فوری بازیابی کو یقینی بنائے ۔