گزشتہ دنوں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازع حل کرنے سے متعلق اٹارنی جنرل کی زیر صدارت پہلا اجلاس منعقدہوا جو ناکام ہوگیا، پنجاب کے نمائندے نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی کی شرکت پر اعتراض کیا اور پنجاب کے احتجاج پر اٹارنی جنرل کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
اطلاعات کے مطابق سندھ پانی کی تقسیم کے پیرا 2 پر عمل درآمد کرانا چاہتا ہے اگر سندھ کی تجاویز مان لی جائیں تو اس صورت میں پنجاب کو 42 لاکھ ایکڑ فٹ پانی سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور پانی کے حصے میں کٹوتی سے پنجاب کی معیشت کو سالانہ 4 سو ارب روپے کا نقصان ہوسکتا ہے۔
سندھ چاہتا ہے کہ کے پی کے اور بلوچستان کو حاصل پانی کی کمی کا استثنیٰ بھی ختم کیا جائے لیکن یہ مسئلہ سنگین ہے کیوں کہ استثنیٰ ختم کرنے سے کے پی کے اور بلوچستان کے لیے پانی کی کمی 50 فی صد تک ہوجائے گی۔پہلا اجلاس بے نتیجہ رہنے پر اٹارنی جنرل نے 4 دسمبر کودوسرا اجلاس طلب کرلیا ہے جس 160میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو مدعو کیا گیا ہے۔
اجلاس میں جس طرح معاملے کو طول دیا گیا یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے ، بلوچستان اس وقت آبی قلت سے شدید دوچار ہے اور یہاں قحط پڑ رہی ہے۔ بلوچستان انڈس کے نظام سے باہرہے البتہ دریائے سندھ ڈیرہ غازی خان میں 300میل تک بہتا ہے لیکن وہ انتظامی طورپر پنجاب کا حصہ ہے۔
اس موجودہ انتظامی بلوچستان کو نہری پانی سندھ اور پنجاب سے فراہم کیا جاتا ہے دوسر ے الفاظ میں نہری پانی پر کنٹرول سندھ اور پنجاب کے پاس ہے۔ دونوں صوبے اپنی مرضی اور ضروریات کے تحت نہری پانی کھیرتھر کینال اور پٹ فیڈر میں چھوڑتے ہیں جو ہمیشہ بلوچستان کے جائز حق سے بہت کم ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں پانی کی قلت کی صورت میں دونوں صوبے سزا بلوچستان کو دیتے ہیں اور اس کے حصے کا پانی کم کردیتے ہیں۔
یہ ایک امتیازی سلوک ہے جو کئی دہائیوں سے روا رکھا جارہا ہے۔ اس کی زندہ مثال کچھی کینال ہے۔ صوبوں کے درمیان سندھ کے نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ 1991ء میں ہوا ، اس میں شہباز شریف اور نواب ذوالفقار مگسی نے اہم کردار ادا کیااور صوبوں کے درمیان نہری پانی کے تقسیم کے تنازعے کو حل کردیا۔
اس کی رو سے بلوچستان کو دس ہزار کیوسک سے زیادہ سیلابی پانی کا حصہ ملنا ہے۔ ظاہر ہے کہ پٹ فیڈر اور کھیرتھرکینال میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ وہ اضافی دس ہزار کیوسک پانی فراہم کرسکے اس لئے یہ تجویز منظور ہوئی کہ اضافی نہری پانی کیلئے کچھی کینال تعمیر کی جائے، ویسے کچھی کینال کا منصوبہ پراناتھا۔
پٹ فیڈر کی تعمیر کے بعد کچھی کینال کو اہمیت دی گئی کہ وہ بلوچستان کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام ہوگا۔1991سے لے کر آج تک کچھی کینال تعمیر نہیں ہوسکا۔وجہ وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی تھی اور نہ ہی ماضی میں اس بات کو اہمیت دی گئی کہ بلوچستان کو اضافی دس ہزار کیوسک پانی مل سکے لہذا وہی ترکیب استعمال کی گئی کہ کچھی کینال کی تعمیر میں جتنی زیادہ دیر کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔
غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں گندم کی شاٹ فال تقریباً تین لاکھ ٹن ہے اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے مگر کچھی کینال کے مکمل ہونے کے بعد بلوچستان غذائی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل ہوجائے گا بلکہ افغانستان اور ایران کی جزوی ضروریات کو بھی پوری کرسکتا ہے۔ کچھی کینال کے علاوہ بھی حکومت چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم تعمیر کرسکتی ہے جس سے دور دراز کے علاقے غذائی معاملات میں خود کفیل ہوں گے اور ان کو نصیر آباد ڈویژن سے گندم کی ترسیل کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
صر ف مکران میں 360سے زائد چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں جو نہ صرف غذائی پیداوار میں بلوچستان کو خود کفیل بنائیں گے بلکہ صنعتی اور تجارتی ترقی کیلئے اضافی پانی گوادر ‘ پسنی ‘ اورماڑہ جیسے بندر گاہوں کوفراہم کریں گے ،اگر گوادر کے قریب پانچ بڑے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کیے جائیں تو گوادر پورٹ کی پانی کی ضروریات پوری ہوں گی۔
بہرحال امید کی جاسکتی ہے کہ پنجاب اور سندھ بلوچستان کو اس کے حصہ کا پانی فراہم کریں گے اور بہانے بہانے سے اس میں کٹوتی نہیں کریں گے ، اس کے علاوہ وفاق بھی بلوچستان میں پانی بحران کو حل کرنے پر خصوصی توجہ دے گی اور بلوچستان کے بنجر ہونے کا انتظار نہیں کرے گی ۔
پانی کی تقسیم کا تنازع اوربلوچستان کا حصہ

وقتِ اشاعت : November 21 – 2018