|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2018

کوئٹہ : چیف آف سراوان سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے کہا ہے کہ آئین کا تقاضہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کو ہر پانچ سال بعد آجانا چائیے تاکہ قومی وحدتوں کو آئین میں دیئے گئے ۔

مالی حقوق منتقل ہوسکیں2009ء بعدسے اب تک دوسرا این ایف سی ایوارڈ کا نہ آنا آئین کی سراسر خلاف ورزی ہے جس کے مرتکب سابق اور موجودہ وزیراعظم عمران خان ہوچکے ہیں ۔ وفاق کو مضبوط کرنے کیلئے قومی وحدتوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں 1940 ء کی قرار داد کی دستاویز کو بنیاد بناکر ملک میں نیا عمرانی معاہدہ وقت کی ضرورت ہے ۔

سی پیک کے بلوچستان اورجنوبی پشتونخواء بڑے اسٹیک ہولڈر زہیں سی پیک کے حوالے سے اسلام آباد، لاہوراور بیجنگ میں مذاکرات دھوکہ دہی اور قومی وحدتوں کے اختیارات کو سلب کرنے کا ڈرامہ ہے ۔

سی پیک سے متعلق جو بھی مذاکرات اورمعاہد ے ہوں وہ کوئٹہ اور پشاور میں بیٹھ کر کئے جائیں اس کے علاوہ ہمیں کوئی بھی معاہدہ یا مذاکرات قابل قبول نہیں ہونگے یہ بات انہوں نے گزشتہ روز صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ9 200 میں ان کی دور حکومت میں آیا تھا آئین کا تقاضا ہے ہرپانچ سال بعد دوسرا این ایف سی ایوارڈ آجانا چائیے مگر افسوس کہ مرکز میں حکومت نوازشریف کی ہو یا آج عمران خان کی دونوں نے آئین کے تقاضہ کو پوار نہیں کیا اور آئین کر سراسر خلاف ورزی کی جارہی ہے اب تو اینگرو کو تباہ کرنے والے وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ کو 2 سال مزید موخر کرنے کی تجویز ہے ۔

ان کے اس عمل سے1973ء کے آئین کا وجود مشکوک ہونے لگاہے جب کہ قومی وحدتوں کی مالی مشکلات کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حالت تو یہ ہے کہ سی پیک سے متعلق معاہدہ اور مذاکرات لاہور ، اسلام آباد،اور بیجنگ میں ہورہے ہیں ہونا توچائیے سی پیک سے متعلق مذاکرات اور معاہدہ کوئٹہ اور پشاور میں ہوں گوادر بلوچستان کا حصہ ہے اور سی پیک کا مغربی روٹ جنوبی پشتونخواء سے گزرتا ہے ۔ 

بلوچستان اور جنوبی پشتونخواء اس کے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں ۔ کرتا درتا ہوں کا اس طرح کا عمل سی پیک کو دھوکہ دہی اور قومی وحدتوں کے اختیارات کو سلب کرنے کا ایک ڈرامہ نظر آرہا ہے جو کہ 1973ء کے آئین میں قومی وحدتوں کو دیئے گئے اختیارات کے منافی ہے اور ہمیں یہ طریقہ کار کسی بھی طرح قبول نہیں ہے میں ہمیشہ سے یہ کہتا چلا آرہاہوں ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدہ کی ضروت ہے ۔

اب تو انہیں 18 ویں ترمیم بھی قابل قبول نہیںَ اور 73 کے آئین میں قومی وحدتوں کو دیئے گئے اختیارات میں عملدرآمد نہ کرنا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے لہذا ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس ساری صورتحال کو سنجیدگی سے جائزلینا چائیے میں مطالبہ کرتا ہوں 1940ء کی قرار داد کی دستاویزات کو بنیاد بناکر قومی وحددتوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دیئے جائیں ۔

حکومت کے پاس جواز باقی نہیں ہمیں کہیں کہ 1973ء کے آئین کے تحت ملک کی باگ دوڑ چلائی جائے ، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کے بھوت بنگلوں میں بیٹھے ان لوگوں کی سمجھ دانی میں ہماری ی باتیں سماء نہیں پارہیں۔ انہیں چائیے کہ وہ ہماری ان باتوں کو سنجیدگی سے لیں اور فیڈریشن کو مضبوط بنانے کیلئے ہمارے اس مطالبہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں ۔