|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2018

بلوچستان میں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑی صنعتیں نہیں اور نہ ہی یہاں پر ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جس سے روزگار کے مختلف ذرائع پیدا ہوسکیں، نوجوانوں کی بڑی تعداد کی تمام تر امیدیں سرکاری ملازمتوں سے وابستہ ہیں مگر بلوچستان میں میرٹ پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی بلکہ من پسند بھرتیاں عمل میں لائیں گئیں۔ 

تعلیم، صحت، زراعت سمیت ہر شعبے میں یہ رویہ اپنایا گیااس طرح یہاں کے غریب نوجوانوں کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا، بلوچستان کابینہ نے یہ ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر خالی اسامیوں پر بھرتی عمل میں لائی جائے گی جبکہ اس سے قبل جن محکموں میں ملازمتیں فراہم کی گئیں تھیں ان کی شفافیت کو جانچنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے۔ 

اقرباء پروری اور سفارش پر بھرتی ہونے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے ۔ گزشتہ روز ایک اجلاس میں صوبائی کابینہ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے خالی اسامیوں پر نئی بھرتیوں کی منظوری دے دی اور تمام محکموں کو فوری طور پر بھرتی کے عمل کا آغاز کرنے کی ہدایت کی۔ 

صوبائی کابینہ کی جانب سے صوبے کے بے روزگار نوجوانوں کو پیغام دیا گیاہے کہ وہ اعتماد کے ساتھ بھرتی کی درخواست دیں ،بھرتیاں خالصتاً میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر کی جائیں گی۔ کابینہ کے اجلاس میں نگران دور حکومت میں کی گئی بھرتیوں کا جائزہ لینے کے لئے قائم کابینہ کی سب کمیٹی کی جانب سے رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ 

صوبائی کابینہ نے صوبے کے اپنے محاصل میں اضافے کے ذریعہ خود انحصاری کے حصول کو ناگزیر قراردیتے ہوئے بلوچستان ریونیو اتھارٹی کی استعداد کار میں اضافے کے لئے ریونیو اتھارٹی ترمیمی بل 2018ء اور خدمات کی فراہمی پر عائد بلوچستان سیلز ٹیکس ترمیمی بل 2018 ء کی بھی منظوری دی۔ چیئرمین بی آر اے اور سیکریٹری خزانہ نے اجلاس کو بتایا کہ ادارے کی وسعت اور استعداد کار میں اضافے سے ایک اندازے کے مطابق آئندہ چند برسوں میں گوادر سمیت دیگر شعبوں سے تقریباً چار سو ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے۔

صوبائی کابینہ نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے قواعد میں بعض اہم ترامیم کی منظوری بھی دی جس کے تحت کمیشن کے اراکین کی تعداد بمعہ چیئرمین بارہ ہوگی جن میں کم از کم دو خواتین بھی شامل ہوں گی۔ 

اراکین میں پچاس فیصد گریڈ 20یا اس سے زیادہ کے گریڈ میں ریٹائر ہونے والے انتظامی سیکریٹری اور ریٹائرڈ جج جبکہ دیگر پچاس فیصد میں نجی اور سرکاری شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، ریٹائرڈ ماہرین تعلیم اور دیگر شعبوں کے ماہرین جو مقررہ معیار پر پورے اترتے ہوں ،شامل ہوں گے۔ 

کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کی تعیناتی کے لئے چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں سلیکشن بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو ہر رکن کی تعیناتی کے لئے تین امیدواروں کا پینل وزیراعلیٰ کو بھجوائے گااور وزیراعلیٰ کی سفارش پر گورنر بلوچستان چیئرمین اور اراکین کی تعیناتی کی منظوری دیں گے، اراکین میں صوبے کے تمام ڈویژنز کی نمائندگی شامل ہوگی۔

ان ترامیم کا مقصد بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی کارکردگی اور افادیت میں اضافہ کرنا ہے۔ حکومت نے 100 روزہ کارکردگی اور مستقبل میں بہترطریقے سے گڈ گورننس کے ذریعے حکمرانی کا سلسلہ جاری رکھنے پر زور دیا ہے اور جس طرح سے فیصلہ کئے ہیں یقیناًانہیں ہر سطح پر سراہا جارہا ہے مگر ان فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے ۔

اس سے قبل بھی بلوچستان میں مخلوط حکومتوں نے عوام کوبہت سے سنہری خواب دکھائے اور اپنے تئیں بہترین فیصلے بھی کئے مگر افسوس کہ ہمارے یہاں سیاسی مصلحت پسندی ہمیشہ آڑے آجاتی ہے جس کی وجہ سے ان فیصلوں پر من وعن عملدرآمد نہیں ہوتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک بار پھر عوام مایوسی کا شکار ہوجاتی ہے اور ان کی امیدیں دم توڑ جاتی ہیں کیونکہ حکومتی فیصلے صرف کاغذوں تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں ۔

امید ہے کہ نئی حکومت اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے بلوچستان سے نہ صرف بیروزگاری کو کم کرنے میں کردار ادا کرے گی بلکہ ساتھ ہی بہترین گورننس قائم کرتے ہوئے ایک مثال قائم کرے گی۔