|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2018

کوئٹہ: سابق صوبائی وزیر سخی میر امان اﷲ نوتیزئی نے وزیراعلیٰ کی ترجمان ایم پی اے بشریٰ رند کے انکے پارٹی سے استعفیٰ دینے کے بارے میں دیئے گئے۔

بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترجمان وزیراعلیٰ بشریٰ رند پہلے بلوچستان عوامی پارٹی میں اپنی پوزیشن کو واضح کریں کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل کے وقت ان کا کیا کردار رہا اور انہوں نے کون سی قربانیاں دی ہیں وہ تو اچانک اوپر سے نمودار ہوئیں اور ایم پی اے بن گئیں ہم سب جانتے ہیں کہ وہ پارٹی میں کہاں سے نمودار ہوئی تھیں جہاں جاری کئے گئے ۔

اپنے ایک بیان میں سابق صوبائی وزیر سخی میر امان اﷲ نوتیزئی کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل (ق) لیگ کے اراکین نے اس وقت کی تھی جب (ن) لیگ کے بعض ساتھیوں نے ملکر صوبے میں تبدیلی لائی تھی اور ہم ق لیگ کے اراکین 2002ء سے تین وزراء اعلیٰ کے ساتھ اقتدار میں رہ چکے ہیں ۔

جن میں2002ء میں (ق) لیگ نے ہی جام یوسف مرحوم کی حکومت بنائی تھی اور پھر2008ء کے الیکشن کے بعد22 ممبران کے ساتھ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کا بھی ہم حصہ تھے۔

2013ء کے الیکشن میں ڈاکٹر عبدالمالک اور اس کے بعد (ن) لیگ کے نواب ثناء اﷲ زہری کے ساتھ بھی ہم (ق) لیگ کے اراکین حکومت میں شامل رہے اور بعد ازاں (ق) لیگ نے ہی (ن) کے ساتھیوں کے ساتھ ملکر صوبے میں تبدیلی لائی اور اپنی حکومت بنائی جس کے بعد بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی اس تمام سیاسی جدوجہد میں (ق) لیگ کے اراکین اسمبلی اور دیگر کارکنوں کا ایک بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔

آج بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی ہمارے ساتھیوں کی بڑی تعداد موجود ہے لہذا ریکارڈ کو درست کرنا چاہیے اور اس نئی جماعت میں اچانک نمودار ہونے والوں کو اس تمام سیاسی جدوجہد اور سیاسی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی پر انگلی اٹھانی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں نے بلوچستان عوامی پارٹی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ جب مجھے پارٹی میں کوئی حیثیت ہی نہیں دی جارہی تو میں اپنے دوستوں کو کیوں دھوکہ دوں اور یہاں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میری طرح کئی اور دوست بھی جلد ہی میری طرح کے فیصلے کریں گے کیونکہ ان کو بھی پارٹی کے اندر کوئی اہمیت نہیں دی جارہی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی موجودہ حکومت میں کوئی بات تو ضرور ہے کہ وزراء اور اسپیکر تک مستعفی ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں کہیں تو خرابی اور خامی تو ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خرابی اور خامی پارٹی کے سربراہ میں ہوگی جو کہ پارٹی کی سربراہی کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔

لیکن پارٹی کے سربراہ اور وزیراعلیٰ ابھی تک اس طرح سے نہیں چل پارہے جس طرح سے انہوں نے پارٹی کے اندر بیٹھ کرتمام ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلنے کے وعدے کئے تھے اور پارٹی پروگرام کے تحت سب کواعتماد میں لے حکومتی امور چلانے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن کچھ عرصے سے وہ اپنے ان وعدوں اور یقین دہانیوں پر پورا نہیں اتررہے ۔

لہٰذا ہم نے ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کرپارٹی سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے میرے دیگر دوست بھی آئندہ چند روز میں انہی شکایات کے ساتھ پارٹی سے علیحدہ ہونے کے اعلانات کریں گے۔