|

وقتِ اشاعت :   November 29 – 2018

پورے پاکستان کی طرح بلوچستان میں بھی بے روزگاری مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔نوجوان بڑی مشکلوں سے پڑھ کر اپنی ڈگریاں ہاتھوں میں لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔پچھلی حکوت نے بھی اعلان کیا تھا کہ صوبے میں 30ہزار نوکریاں دستیاب ہیں مگر چند نامعلوم وجوہات کی بناء پر خاطر خواہ بھرتیاں نہ ہوسکیں۔ 

میرے خیال میں ان نا معلوم وجوہات میں بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ بیوروکریسی اور سیاستدان آپس میں متفق نہ ہوئے کہ کس کو کتنی نوکریاں ملیں گی۔یہ شک میں اس لیئے کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے نیتوں اور عادات کا علم ہے ۔ہر وزیر بھی چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نوکریاں حاصل کرے تاکہ وہ انھیں بیچ کر یا اپنے حلقے میں میرٹ سے ہٹ کر سیاسی بنیاد پر اپنے من پسند افرادکو دیں ۔

میری اس بات سے شاید کوئی انکار نہ کرے کیونکہ یہ ہمارے تاریخ میں اس طرح ہوتا آرہا ہے۔اس حکومت نے گزشتہ دنوں خالی اسامیوں پر بھرتی کے احکامات جاری کر دیئے ہیں اور خاص ہدایات بھی جاری کیں ہیں کہ جتنا جلدی ہو سکے بھر تیوں کا عمل مکمل کیا جائے ۔

یہ ایک نہایت ہی خوش آئند فیصلہ ہے،کیونکہ اس سے صوبے کے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔اس سلسلے میں وزیر اعلی جام کمال کو چاہئے کہ بھرتیوں کے عمل کو صاف و شفاف بنانے کے لیے ایسا کو ئی طریقہ کار بنائیں کہ میرٹ کی پامالی نہ ہو۔مستحق کا حق کوئی اور نہ کھائے۔

ان نوکریوں کو وزراء یا ایم پی اے ،ایم این اے کے توسط سے نوجوانوں کو دینے کے بجائے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اور کوئی ایسی کمیٹیاں تشکیل دے کر جن میں غیر سیاسی، غیر جانبداراور قابل بھروسہ ارکان شامل ہوں،ان کے ذریعے دیئے جائیں تو بہتر ہے ۔

کیونکہ ماضی میں اس طرح ہوتا رہا ہے کہ ہمارے وزراء اور ایم پی اے،ایم این اے نوکریاں کمیشن لے کر اپنے من پسند افراد کو دیتے رہے ہیں۔اس طرح بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بھرتیاں قرعہ اندازی کے ذریعے بھی کی گئی ہیں،جو کہ میرٹ کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔

اس طرح کرنا ہمارے سیاستدانوں کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اپنے من پسند افراد یا اپنے جیالوں کی سفارش کو رد نہیں کر سکتے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اگر کوئی کسی حلقے سے ایم این اے یا ایم پی اے منتخب ہو کر آتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے حلقے کے تمام لوگوں یکساں طور پر دیکھے چاہے اسے کسی نے ووٹ دیا ہے یا نہیں ۔

مگر ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ منتخب نمائندے صرف اپنے ہی پارٹی والوں کو نوازتے ہیں اور اپنے مخالف اور ووٹ نہ دینے والوں کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے جوکہ ایک جاہلانہ عمل ہونے ساتھ ساتھ اس کے سیاسی ساکھ کے لیئے بھی نقصان دہ ہے۔ اس طرح میرٹ کی پامالی اور غلط بھرتیوں سے حق دار کا حق مارنے کے ساتھ ساتھ نااہل لوگ حکومتی مشینری میں آجاتے ہیں اورہمارے نظام کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔

ہمارا صوبہ نہایت ہی غریب اور پسماندہ ہے جہاں تعلیم کے مواقع بہت کم ہیں ۔ اگر کوئی غریب اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنے بچے کو تعلیم دلاتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لے کر ملازمت کے حصول کے لیے دربدرکی ٹھوکریں کھاتا ہے ،اس طرح تعلیم اس کے لیے وبال جاں بن جاتا ہے کیونکہ اب وہ حاصل کردہ ڈگریوں کے ساتھ مزدوری بھی نہیں کر سکتا۔خدارا میرٹ کو پامال مت کریں،غریب کو اس کا حق دیں۔