|

وقتِ اشاعت :   December 1 – 2018

خاران:  ایکشن کمیٹی کی کال پر رخشان ڈویڑن کے ہیڈکواٹر کا خاران سے آحمدوال منتقلی کے کوششوں کے خلاف پریس کلب خاران اور چیف چوک پر مظاہرہ کیا گیا۔

مظاہرے میں سول سوسائٹی، آل پارٹیز، ٹریڈ یونیز، مختلف طلباء تنظیموں، وکلاء برادری کے نمائندوں سمیت علاقائی معتبرین ، بلدیاتی نمائندگاں، زمینداروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی اور .بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماوں نے بھی پریس کلب کے سامنے الگ الگ مظاہرہ کیا ۔

پریس کلب کے سامنے منعقدہ تینوں مظاہرہ کے شرکاء نے رخشان ڈویڑن ہیڈکواٹر کی خاران سے آحمد وال منتقلی کے خلاف نعرے بازی کی اور کہا کہ خاران بنیادی طور پر ایک ریاست رہا ہے جو تاریخی نام اور مقام رکھتی ہے اور مئی دو ہزار اٹھارہ میں صوبے میں رخشان بیلٹ کے چار اضلاع پر مشتمل رخشان ڈویڑن کے نام سے نئے ڈویڑن کے قیام عمل میں لاکر خاران کا بطور ہیڈکواٹر باقاعدہ طور پر نوٹفیکیشن جاری اور کمشنر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ۔

حکومت کی جانب سے ڈویڑن کے لیئے چالیس کروڑ کے فنڈز/ اور خاران کے نام پر کوڈ سمیت عدالت حالیہ کی جانب سے خاران میں ڈویڑن ہیڈکواٹر کے لیئے پانچ سو ایکٹر زمین کی گء مگر بدقسمتی سے گزشتہ دنوں وزیر اعلی بلوچستان سے حکومت میں شامل ایک صوبائی وزیر کی کوششوں سے ایک سمری جاری کروائی گئی ۔

جسمیں رخشان ڈویڑن کے ہیڈکواٹر کا خاران سے آحمدوال منتقل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو ظلم و نااں صافی کے مترادف ہے کیونکہ خاران کا پہلے سے انتخاب ہو کر باقاعدہ کمشنر رخشان ڈویڑن نے خاران میں دفتری امور کے کام سر انجام دینا شروع کر دی ہے اور خاران نہ صرف ڈویڑن کے چاروں اضلاع پر مشتمل درمیان میں واقع ہے بلکہ انٹر نیشنل سطع پر پزیرائی رکھنے والے دالبندین ٹو بسیمہ سی پیک لنک روٹ بھی خاران سے جاتی ہے ۔

مظاہرین نے کہا کہ ڈویڑنل ہیڈکواٹر کی منتقلی کا مقصد چاروں اضلاع کے عوام میں نفرتیں پیدا کرنا ہے جو اہل خاران کو قبول نہیں انھوں نے کہا کہ خاران میں کمشنری نظام کے سیٹ اپ کے تمام تر انتظامات و بلڈنگ موجود ہیں اور سرے سے خاران کو ڈویڑنل ہیڈکواٹر دیکر اب واپسی کی سمری خاران کے منہ سے نوالہ چھینے کے مترادف ہے۔

مظاہرین نے وزیر اعلی بلوچستان/گورنر و چیف سیکرٹری سے فوری نوٹس لینے کا مطالعبہ کیا اس موقع پر ایکشن کمیٹی کے رہنما شہزادہ علاوہ الدین پیرکزئی نے احتجاج میں شامل شرکاء4 کا شکریہ ادا کی جبکہ ممتاز عالم دین مولانہ محمد قاسم چشتی نے دعائے خیر کی اور بعد میں سینکڑوں مظاہرین پرامن طور پر منتشر رہے۔