|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2018

قلات : قلات میں طویل خشک سالی کے باعث زراعت اور لائیو اسٹاک کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے طویل عرصہ سے معمول سے کم بارشوں اور برف باری نہ ہو نے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں فٹ گر گئی ہیں جس سے جہاں قلات میں پرانی پانی کی کاریزیں اور ہزاروں کی تعداد میں زرعی ٹیوب ویل خشک ہو گئے ہیں ۔

پانی کی اس صورتحال اور طویل خشک سالی کے نتیجے میں قلات میں نو ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے سیب اور دوسرے پھلوں کے باغات مکمل طور پر خشک ہو گئے ہیں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار سے زائد پھلوں کے درخت کاٹ دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ جو زراعت اور مالداری کے شعبے سے وابستہ تھے ان کی اقتصادی حالت بری طرح متاثر ہوئی ہیں ۔

قلات جو پھلوں کی پیداوارکی وجہ سے فروٹ باسکٹ کہلاتا تھا آج ایک ویران خطہ میں تبدیل ہوتا جارہا ہے قلات کی 80 فیصد آبادی کا زریعہ معاش زراعت اور جانور پالنا ہے جس سے علاقے کے لوگ اپنا بسر گزر کرتے ہیں طویل خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گر نے کا مسئلہ کئی عرصہ سے درپیش ہیں ۔

زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ لوگوں نے بارہا علاقے سے منتخب ہو نے والے اراکین اسمبلی اور وزرا کو اس مسئلے سے آگاہ کیا لیکن اسطرف کوئی توجہ نہیں دی گئی روان سال ہو نے والے انتخابات کے دوران جو الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو اس جانب توجہ دلائی گئی اور اس پر ہو نے والی معاشی بد حالی سے بھی آگاہ کیا گیا ۔

اس کے علاوہ گزشتہ دو دھائیوں کے درمیان آنے والی صوبائی حکومتوں کی توجہ بھی مبزول کرائی گئی لیکن حالات جوں کے توں رہے زمیندار کسان اتحاد کے صدر آغا لعل جان احمدزئی جو کہ علاقہ کے بڑے زمینداروں میں شمار ہو تے ہیں ۔

ان کا کہنا تھا برف باری اور بارش میں کمی موسمی حالات اور بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے جسکا زراعت کے شعبے پر بہت برا اثر پڑا ہے اور آج علاقے کی زراعت اور گلہ بانی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے بہت سارے کاموں میں قدرت کا عمل دخل ہو تاہے ۔

لیکن انسان اس صورتحال سے نمٹنے کے لیئے ضروری اقدامات اور منصوبہ بندی کرتاہے لیکن یہاں حکومتوں اور متعلقہ اداروں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو معمول پر رکھنے کے لیئے ڈیمز کی تعمیر بہت ضروری ہے جو کہ تعمیر نہیں کیئے گئے ۔

جس کے نتیجے میں آج قلات اور اسکے دوسرے علاقوں میں پانی کی سطح سات سو فٹ سے لیکر ایک ہزار فٹ تک نیچے چلی گئی ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں زرعی ٹیوب ویل خشک ہو گئے ہیں اور پرانے کاریز کی نظام میں بھی پانی دستیاب نہیں ہے شہزادہ لعل جان احمدزئی نے عوامی نمائیندوں کے رویہ پر افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے الیکشن سے قبل عوام سے کیئے گئے وعدے یکسر نظر انداز کردیئے ہیں ۔

قلات سمیت بلوچستان بھر میں بارش اور برف باری میں کمی کی وجہ سے زراعت اور لائیو اسٹاک کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے بارش اور برف باری میں کمی اور ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے سطح میں روز بروز کمی ہو تی جارہی ہیں اور اب زیر زمین پانی کی سطح سات سو فٹ سے لیکر نو سو فٹ تک نیچھے چلی گئی ہیں ۔

جس سے زمینداروں کی سینکڑوں ٹیوب ویل خشک ہوگئے ہیں مگر حکومت نے اب تک اس جانب کبھی بھی توجہ نہیں دی اگر علاقہ میں بارشوں کی پانی کو زخیرہ کر نے کے لیئے اس وقت چیک ڈیم بنائے جاتے تو آج پانی کا مسئلہ پیدا نہیں ہو تا انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی جانب سے تاحال اس جانب بھی توجہ نہیں دی جارہی ہیں جو کہ قابل افسوس ہیں حکومتی نمائیندوں نے الیکشن کے وقت عوام سے جو وعدے کیئے تھے وہ یکسر بھول گئے ہیں۔

وزیر آعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے لائیو اسٹاک مٹھا خان کاکڑ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں طویل خشک سالی نے لائیواسٹاک کے شعبہ کو بھی شدید متاثر کیا ہیں صوبائی حکومت بلوچستان میں لائیو اسٹا ک کے شعبہ کی بحالی کے لیئے تمام وسائل بروقار لاررہی ہیں جب بھی فنڈز ملے گی ۔

حکومت مالداروں کو مال مویشیوں کے لیئے خوراک اور ادویات فراہم کرے گی انہوں نے کہا کہ لائیو اسٹاک کو ترقی دینا اولین ترجیح ہے مسائل و مشکلات بہت زیادہ ہیں تاہم مالداروں کی بحالی کے لیئے بھر پور اقدامات کیئے جائیں گے ۔

سیکریٹری لائیواسٹاک عصمت اللہ خان کا کڑ کاکہنا ہیکہ کہ حکومت لائیو اسٹاک کے ترقی کے لیئے کوشان ہیں بلوچستان میں حالیہ خشک سالی سے لائیو اسٹاک کوبھی کافی نقصان پہنچا یا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیئے متعلقہ اداروں کے ساتھ آئیندہ کی منصوبہ بندے کے لیئے معاملات چل رہے ہیں جن میں چیک ڈیم کی تعمیر سرے فہرست ہیں ۔

ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت یحیٰ بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سیب کی کل پیداوار کا 35 فیصد حصہ قلات میں پیدا ہوتا ہے ؛ قلات میں ہزاروں ایکڑ پر لگائے گئے سیب خوبانی آڑو چیری کے باغات مکمل طور پر خشک ہو گئے ہیں اور پچاس ہزار سے زائد پھل دار درختوں کو کاٹ دیا گیا ہیں ۔

اس صورتحال کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں لوگ جن کا زراعت کے شعبہ سے تعلق ہے وہ دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں مزدور جن کا روزگار ان باغات سے وابستہ تھا اب بے روزگاری کی وجہ سے فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔

ڈپٹی ڈائریکٹر پی ایچ ائی رحمت اللہ زہری کا کہنا ہیکہ قلات اور گردنواح میں بارشیں کم ہو نے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح نیچھے چلے جانے سے قلات اور خالق آباد میں ہمارے پانچ واٹر اسپلائی اسکیم مکمل طور پر خشک ہوگئے ہیں اور متعدد واٹر سپلائی ا سکیموں کی پانی میں کمی آگئی ہیں جن علاقوں کے واٹر سپلائی اسکیموں کے پانی خشک ہو گئے ہیں ہم ان علاقوں کو متبادل واٹر سپلائیوں سے پانی فراہم کررہے ہیں ۔

تاہم ڈیمز نہیں ہو نے کی وجہ سے پانی کی سطح تیزی سے گرتی جارہی ہیں گلہ بانی کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے عزت خان مالدار کا کہنا ہیکہ ہم غریب لوگ ہیں ہمارا زریعہ معاش گلہ بانی پر ہے الیکشن کے دوران عوامی نمائیندوں نے ہم سے جو وعدے کیئے گئے انہیں پورے نہیں کیئے جارہے ہیں۔

ہمارے مال مویشیوں کے بچاؤ کے لیئے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھا یا جارہا ہیں ہم بہت پریشان ہیں ہمارے مال مویشی مر رہے ہیں قلات میں بارشیں اور برف باری میں کمی کی وجہ سے جہاں زراعت اور لائیواسٹاک شدید متاثر ہواہیں وہاں ز یر زمین پانی کی زخائر میں کمی سے پینے کے پانی مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہیں ۔

اگر چیک ڈیمز تعمیر نہ کیئے گئے اور اس صوتحال سے نمٹنے کے لیئے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو آئیندہ چند سالوں میں ماضی کا یہ زرخیز ترین خطہ مکمل طور پر بنجر زمین میں تبدیل ہو جائے گا اور ہماری آئیندہ آنے والی نسلوں کے لیئے کچھ بھی نہیں بچے گا علاقہ کے زمیندارون کا کہنا ہے کہ حکومت لوگوں کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیئے خصوصی پیکج کا علان کرے ۔