|

وقتِ اشاعت :   December 2 – 2018

1907ء میں عنایت اﷲ کاریز میں پیدا ہونے والے پشتون قوم کے قائد خان عبدالصمد خان اچکزئی کے بارے میں 2 دسمبر 1973ء کو صبح سویرے چھ بجے ریڈیو پاکستان سے خبر نشر ہوئی کہ کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے رکن خان عبدالصمد خان اچکزئی بم حملے میں شہید ہوگئے۔ 

میں یہاں اس سانحے کی تفصیل یا تاریخ بیان کرنے کی بجائے خان شہید کا نظریہ سیاست لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ خان شہید کسی قسم کی استعماری ریاست کو بھی پسند نہیں کرتے تھے ہر ریاست کو رد کرکے پشتونوں کے لئے انھوں نے پشتونستان کا نصب العین پیش کیا جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ۔

اس کا مکمل تصور اُن کے ذہن میں تھا لیکن ایک بات بالکل صاف ہے کہ اِن کے مزاج میں تمام انسانوں کی آزادی و خود مختاری کے سوا اور کسی خیال کی کارفرمائی نہیں تھی محبت کی طاقت کے سوا اور کسی طاقت سے کام نہ لیا خان شہید کے نزدیک یہ ایک مؤثر ہتھیار تھا کہ ایک فرد دوسرے فرد کو ایک طبقہ دوسرے طبقے کو ایک قوم دوسری قوم کو بے انصافی اور استحصال سے باز رکھ سکتی ہے ظاہر ہے کہ خان شہید کے خیال میں مثالی ریاست میں جہاں ہر فرد یکساں اہمیت رکھتا ہے ۔

سماجی انصاف کے ساتھ سیاسی مساوات کے ساتھ ساتھ کامل سماجی برابری بھی ہوگی۔ خان شہید کے نزدیک نسل و رنگ کی تقسیم یہ ہماری نہیں ہے غیروں سے ماخوذ کی گئی ہے جب تک انسان کی بنیادی ضروتیں پوری نہ ہوں ا س کے لئے پرسکون زندگی بسر کرنے کا کوئی امکان نہیں اِن بنیادی ضرورتوں میں خوراک، لباس ، مکان اور دوسری اہم ضرورتیں شامل ہیں ۔

خان شہید کے نزدیک ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق ہے ۔ اس لئے اسے اس کا حق بھی ہے کہ اس کے پاس اتنے وسائل ہوں جس سے وہ اپنی خوراک ، مکان اور لباس اور دوسری ضرورتیں پوری کرسکے ۔

ان بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ضمانت خان شہید کے نزدیک معاشی نظام میں ہوسکتی ہے جس میں ہر شخص کو اتناکام ضرور ملے کہ وہ اپنی روزی کما سکے اور جس میں ضروریات زندگی کی پیدائش استعمال کے لئے ہو منافع کے لئے نہ ہو ظاہر ہے دونوں چیزیں زندگی کی اہم خصوصیات ہیں ۔

کہ میرے نزدیک ہمارے خطے کا بلکہ ساری دنیا کا معاشی نظام ایسا ہونا چاہیے کہ ہر شخص کے پاس خوراک اور لباس ہونا چاہیے دوسرے معنوں میں ہر فرد کو اتنا کام ملنا چاہیے جس سے اس کی گزر بسر ہوسکے وسائل عوام کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں یہ چیزیں سب لوگوں کو آسانی سے میسر آنی چاہئیں جیسے انھیں خدا کی نعمتیں ہوا اور پانی میسر ہیں اور ہونی چاہئیں اِن چیزوں کی خاطر کسی کو محتاجی کی تکلیف نہ اٹھانی پڑے بلکہ کسی ملک یا قوم کے کسی گروہ کا بلا شرکت غیر قبضہ ہونا بے انصافی ہے۔ 

یہ وہ سوال ہے جسے نظر انداز کردینے کی وجہ سے وہ محتاجی جو ہمیں آج نہ صرف اس بد نصیب خطے میں بلکہ افغان وطن میں بھی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ خان شہید گاؤں گاؤں گھرگھر گئے اورلوگوں میں شعور پیداکرنے کے ساتھ باہمی اتحاد کافروغ سماجی برائیوں کاخاتمہ ، نفرت سے پاک معاشرے کی تشکیل اورغلامی سے چھٹکارا جیسے موضوع پرمتعدد تقاریر کیں مگر ہرتقریر میں ان کازور اس بات پرہوتا تھاکہ افغان وطن کوبرطانیہ کے سامراجی شکنجے سے آزاد کرانالازمی ہے ۔ 

اس کی یہ باتیں ان کے ہاتھ پاؤں میں ’’بیڑی ‘‘ باندھی بھوک وافلاس برداشت کرنا پڑا کم درجے کی کلاس اورپن چکی چلانے جیسے ظالمانہ اقدام کرائے گئے اس کے باوجود اگرآج بھی کسی پشتون نوجوان سے پوچھیں گے کہ آپ کاہیرو کون ہے تووہ ان کانام لے گا جن کاہمارے وطن اورعوام سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ۔ 

شاید اس میں ہمارابھی قصور ہے کہ دانشور اورادیب بھی اپنی کتاب میں وطن کی عظمت اورہیروز کی قربانی پرکوئی قابل ذکر مواد تحریر نہیں کرسکے۔ اس لئے لوگوں کواپنے ہیروز سے کوئی محبت نہیں رہی انھیں اس بات کااحساس تک نہیں رہا تھا بلکہ ستم تو یہ ہے کہ پشتون جہاں بھی گئے ہیں اپنی مادری زبان فراموش کرکے وہاں کی مقامی زبانیں اختیار کرلیتے ہیں دوسروں کواپنی زبان سکھانے کی زحمت انھوں نے کبھی نہیں کی اورنہ ہی خود پشتوزبان پڑھتے اورلکھتے ہیں ۔

غیر تعلیم یافتہ ایک طرف میں جب تعلیم یافتہ پشتونوں سے کہتا ہوں کہ مہینے میں ایک دفعہ ضرورایک پشتورسالہ خریدیئے توان کاکہنا ہوتا ہے کہ پشتو رسالے میں پڑھنے اورسیکھنے کے قابل کوئی چیز کیا ہے ؟ 

میراجواب یہ تھا کہ اگر ایسا ہے تویہ یقیناًپشتوزبان کاقصور نہیں دنیا بھرکے ممالک کی زبانیں ایک وقت میں پسماندہ تھیں لیکن وہاں کے تعلیم یافتہ دانشور اورباہمت افراد نے اپنی زبانوں کی پرورش کرتے ہوئے انھیں عظیم تربلندیوں تک پہنچایا ہم میں سے کسی نے کبھی اپنی پشتو زبان کی پرورش کی یااسے ترقی دینے کی کوشش کی ہے ؟ ایسی کسی کوشش کے برعکس مذہبی لوگوں کاپراپیگنڈہ یہ رہا ہے کہ پشتو جہنم کی زبان ہے اورجہنم کے لوگ یہ زبان بولتے ہیں ۔ 

پشتونوں کی جہالت سادگی کایہ عالم تھا کہ وہ ان لوگوں سے یہ تک نہیں پوچھ سکتے کہ انھیں آخر یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوتی ہیں؟ اورخود وہ کب جہنم سے باہر آتے ہیں؟ بدقسمتی سے پشتونوں کے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس جدید دور میں ابہام کا شکار ہیں ۔ 

وہ دوست اوردشمن کی تمیز نہیں کرسکتے ہیں حالانکہ اس حوالے سے خان شہید ہمیشہ کہتے تھے کہ برائی اوراچھائی کی پہچان پیداکریں اوردانائی بینائی سے کام لیں کیونکہ آج کاانسان قبل تاریخ کاانسان نہیں وہ دھات اورپتھر کے زمانے سے بہت آگے نکل چکا ہے ۔ اب علم کی بدولت کرہ ارض کے انسان کوایک دوسرے سے جوڑ دیاگیا ہے وہ زمانہ نہیں رہا جب پشتون اپنے ہی ملک میں اجنبی تھا یااس پربغیر کسی وجہ سے زبردستی حکمران ہوجاتے تھے آج ان کے شعور کوجگاناچاہیے۔

خان شہید نے وطن کی آزادی کیلئے مسلسل جدوجہد کی ہے انسانی تاریخ میں اتنی طویل جنگ اور اتنی تکلیف برداشت کی۔ ان کی جسمانی بیماری پر اسرار رہی اوروہ پرسکون رہے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ حکمرانوں کی طاقت کتنی ہے ؟ اوراپنے وسائل کیا ہیں ؟ جدوجہد کیا ہے ؟ جگہ جگہ گئے گاؤں، گاؤں، شہر، شہر، ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں سے روابط پیدا کئے۔ 

پشتونوں کوزندہ رکھا پشتون تاریخ کوآباد کیا۔ انہوں نے پشتو زبان کو عام کرنے کی کوشش کی اور ساتھ خود بھی پشتو زبان لکھتے اور بولتے تھے صرف یہی نہیں پشتوزبان کی روایات اوران کی بلندی کے بھی قائل تھے ایسی پشتو جس میں غیر پشتوالفاظ نہ ہوں انھوں نے یہ ثابت کیا تقریر اور تحریر دونوں پشتوزبان میں ہوں کیونکہ اس کے پہلے کسی دوسری زبان کے الفاظ کی ضرورت نہیں۔ 

پشتون اپنی اعلیٰ روایات وتاریخ وتہذیب اور ایک غنی کلچر کے مالک تھے، پشتون کوڈ آف آنرز، اسلام کے رہنما اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں، پشتون معاشرے کو برائی سے پاک کرنے، انسانی اقدار کو اجاگر کرنے، اعلیٰ انسانی اخلاقیات کے فروغ اور اپنے سیاسی نظریات، پشتون قومی وحدت، پشتون ملی تشخص اور پشتون قوم کے اپنے وسائل پر اپنا واک واختیار خان شہید کا نصب العین تھا۔ 

خان شہید اپنے دین اپنی زبان جغرافیہ اوراپنی قوم سے محبت کرتے تھے اورنفرت سے نفرت اورمعاشرے کوبرائیوں سے پاک کرنے کے لئے شرافت اورانسانیت کی تبلیغ کرتے تھے اورلوگوں کونیک بننے کی تلقین کرتے تھے ۔

اس غرض کے لئے انھوں نے پشتوسے پشتولغت ڈکشنری اپنی سوانح عمری قرآن مجید کاپشتو ترجمہ ، سیرت النبیؐ، کیمیائے سعادت، گلستان سعدی، آزادی اُفق کاترجمہ بے شمار خطوط پشتو میں مرتب کئے مزید براں پشتوکو سُچا ، خالص اورجدید رسم الخط عطاکیا اورایک مشہور مقالہ بنام پشتو لیک دود پشتورسم الخط) تحریرکیا۔ اور ساتھ ہی ان کے سارے تصور زندگی کامرکز مذہب ہے مگر ان کا مذہب محض انتہا پسندی نہیں بلکہ بڑی حد تک ذاتی تلاش اور تحقیق پر مبنی ہے ۔

وہ دنیا کے ان چند لوگوں میں سے تھے جنھوں نے بچپن میں بزرگوں سے پائے ہوئے مذہب کی روشنی میں اُس کی تعبیر کی یعنی خان شہید کو بچپن اور نوجوانی میں گو ان کا مذہبی احساس تیز تھا۔ اُن کے مذہبی شعور میں جو خصوصیت تھی وہ یہ تھی کہ وہ اخلاقی اصول کی پابندی خصوصاً راست گوئی اور راست بازی کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ جس وقت برصغیر وہند میں کمیونزم کے چرچے تھے ۔

ہر شخص کمیونزم کا طوطی بول رہا تھا عین اس زمانے میں جیل سے رہائی پر ایک ایک صحافی نے خان شہید سے کمیونزم کے بارے میں ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی تو خان شہید نے صاف الفاظ میں اپنا موقف یوں بیان کیا کہ ’’وہ نظام جو اسلامی نظریات سے متصادم ہو میں ان کا سخت مخالف ہوں۔‘‘

وہ مذہب میں جو فراخ دلی اور رواداری چاہتے تھے وہ اسلام میں نظر آتی تھی انھوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اور اس کی تعلیم سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس کتاب کے مطالعے سے اِن کے مذہبی خیالات کی تشکیل میں بڑا حصّہ ہے اس سلسلے میں خان شہید نے قرآن شریف کے ساتھ دیگر اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اور انھوں نے اسے اپنا دستور العمل بنایا چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ قرآن شریف میرے لئے ایک قطعی ضابطہ عمل بن گیا ‘‘ ۔

دراصل خان شہید کو مذہبی ذہنی تسکین کی اتنی زیادہ فکر تھی کہ اخلاقی رہنمائی کے لئے کسی سہارے کی تلاش میں تھے یہ قرآن شریف سے پوری ہوئی اس نے انھیں سکھایا کہ بے غرض محبت اور خدمت ہی کے ذریعے سے انسان حق کی معرفت حاصل کر سکتا ہے ۔ قرآنی تعلیمات میں انھیں پوری زندگی کے اصول ملے اور الجھن دور ہوئی۔ اِن کی سمجھ میں آتا تھا کہ دنیا میں رہ کر انسانی ملکیت (قرآن ) میں برابری ہوسکتی ہے انھوں نے اپنے آپ کو’’ قرآن کے نظریے ‘‘سے تسکین دے لی۔

خان شہید کی ذہنی تحقیق کی تبدیلی میں مذہبی نشوونما اس بلا واسطہ روحانی واردات کے ذریعے ہورہی تھی اور اس سلسلے میں خان شہید کے مذہبی اور اخلاقی تصورات عمل کے آئینے میں واضح ہوگئے۔

جو اس سماج کی تشکیل میں مدد دے دراصل خان شہیدکا فلسفہ عملی تھا کہتے ہیں کہ ’’مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ اپنے آپ کو فلسفہ زندگی کی تعلیم دے سکوں بمشکل اتنی صلاحیت ہے کہ جس فلسفے کے قابل ہوں اس کو عمل میں لے آؤں‘‘ (سوانح عمری )اس طرح اسلام میں ہمیشہ یہ جذبہ عام طور پر پایا جاتا تھا کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ رواداری کا بلکہ احترام کا برتاؤ کیا جائے۔ 

خان شہید نے اِن دونوں کو ملا کر اسلام کے عین مطابق قراردیا جس کے مطابق تمام مذاہب میں صداقت موجود ہے اس لئے سب کا یکساں احترام کرنا چاہیے اور اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے سب کے اچھے اصولوں کو اپنالینا چاہیے ۔

خان شہید کا یہ اصول کہ ہر شخص اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مذاہب کی قدر کرے اور ان کی اچھائیوں کو اپنائے مذہبی ہم آہنگی اور صلح و امن کی زیادہ قابل عمل شکل ہے مشہور مقولہ ہے کہ’’جہاں سچے لوگ ہوں وہاں ہمیشہ خوشی ہوتی ہے وہاں رنج کے لئے کوئی گنجائش نہیں ‘‘خان شہید اس عمل کو سچائی کہتے ہیں ۔

اس میں پورے قانون کو حق کا عالمگیر قانون کہتے تھے جب خان شہید حق کی تلاش اور حق پر عمل کرنے اور سچائی کو بنیادی اصول قرار دیتے ہیں تو حق کے یہ چار پہلو اُن کے سامنے ہوتے ہیں یعنی مذہب، اخلاق، سچائی، آزادی لیکن یہاں ایک پہلو پر بات کو ضروری سمجھتا ہوں کہ خان شہید وسائل کو بھی زیادہ اہمیت دیتے تھے جس کا محفل یا مجالس میں یوں ذکر کرتے تھے کہ ’’ وسائل اور مقصد میرے فلسفے میں مترادف الفاظ ہیں لوگ کہتے ہیں وسائل بہرحال وسائل ہی ہیں ۔

میں یہ کہوں گا کہ وسائل بہرحال سب کچھ ہیں جیسا وسیلہ ہوگا ویسا ہی مقصد بھی ہوگا۔ وسیلے اور مقصد کے درمیان میں کوئی دیوار نہیں جو ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہو اس طرح مقصد بھی وسائل کی طرف آخری کڑی ہے ‘‘ خان شہید کی مذہبی رواداری اور اخلاقی نظریے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے دو باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے پہلی بات بالکل ظاہر ہے اس لئے اس کی طرف اشارہ کردینا کافی ہے کہ انسانی وجود کے لئے آزادی ضروری ہے ۔ 

چنانچہ جو انسان اپنی شخصیت کی تکمیل چاہتا ہے ۔اسے سب انسانوں کی بھلائی کو اپنی بھلائی سمجھنا چاہیے اس سلسلے میں دوسری بات ذرا غور طلب ہے کہ خان شہید کی بنیادی سیاست جس نے اِن کی زندگی کو بدل ڈالا انھیں یقین دلایا کہ انسان کا دکھ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے چنانچہ وہ جاگیرداروں اور خانوں سے متفق نہ تھے جو انسانی آزادی کو غیر حقیقی سمجھتے تھے انھوں نے حقیقت کی دنیا میں انھیں مجبور کردیا تھا کہ دنیا کو کم سے کم ایک درجے تک حقیقی سمجھیں۔

خان شہید کا بنیادی تجربہ انسانیت کا احساس تھا۔ اس طرح ان کا بنیادی اخلاقی عزم یہ تھا کہ اس پسماندگی کو مٹا کررہیں گے ’’ ہر آنکھ سے ہر آنسو مٹانا ‘‘ اِن کی زندگی کا مقصد تھا یہی خیال تھا جو اُن کے ذہن پر چھایا ہوا تھا یہی سوچ تھی جو ان کے عمل کی تہہ میں تھی۔ آج ان کی 45 ویں برسی دنیا بھر میں عقیدت و احترام سے منائی جارہی ہے۔