|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2018

محمود خان اچکزئی نے ماضی کی طرح ایک بار پھر پختونستان یا افغانیہ صوبے کا مطالبہ کرتے ہوئے پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں پر بھی غیر منطقی دعویٰ کیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ موصوف گزشتہ حکومت کے دوران بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل رہے اورلیکن انہوں نے کوئی قرارداد پیش نہیں کی اور نہ ہی اس کا مطالبہ ایوان میں کیا ۔

جبکہ مرکز میں بھی نواز شریف کے انتہائی قریبی دوستوں میں محمود خان اچکزئی کا شمار ہوتا تھا اورانہیں بطور خاص افغانستان کے لیے ایلچی مقرر کیا گیا تھا۔ جس طرح سے میاں محمد نواز شریف نے محمود خان اچکزئی کو اپنے دور میں نوازا شاید ہی کسی اور اتحادی کو اتنی اہمیت دی ہومگر اس دوران موصوف مکمل خاموش رہے حالانکہ بلوچستان میں بھی تقریباً انہی کی حکومت تھی لیکن وہ مراعات کی حصول میں اس قدر مگن تھے کہ انہیں پختون صوبے کا نعرہ تک یاد نہیں رہا۔لیکن اب موصوف اور ان کی پارٹی پر اس دفعہ نوازشیں کم کی گئیں تو اپنے ہی عوام کو ایک بار پھر سبز دکھانے کے لییموصوف پرانا نعرہ بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 

جب موصوف حکومت میں تھے تو ان پانچ سالوں کے دوران کسی نے بھی یہ نعرہ نہیں سناکیونکہ اس وقت ان کی ترجیحات میں پختون صوبہ شامل نہیں تھا مگرموصوف جب بھی حکومت سے باہر ہوتے ہیں توانہیں پختونوں کا غم کھانے لگتا ہے اور اس طرح اپنے ہی عوام کو بے وقوف سمجھ کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جس سے پختون بھائی بخوبی آگاہ ہیں۔ پختونوں کے ایک متحدہ صوبے پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔سیاستدان خصوصاً قوم پرست حلقے ملک بھر میں اس کی حمایت کرتے ہیں ۔

ان کا وژن صاف اور واضح ہے کہ اس میں افغانستان کے وہ تمام مفتوحہ علاقے جو برطانیہ نے اور بعد میں جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑنے کے بعد بلوچستان میں زبردستی اور یک طرفہ طورپر شامل کیے تھے ‘ کے علاوہ کے پی کے کا پور اصوبہ اور فاٹا شامل ہیں ، افغانیہ صوبے میں شامل کیے جائیں اور پورے پاکستان میں پختونوں کا ایک ہی صوبہ ہو کیونکہ ایک ملک میں ایک ہی قوم کے دو صوبے نہیں ہوسکتے ۔

لیکن بد قسمتی سے محمود خان اور اس کے پارٹی کے دوسرے رہنماء اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور دوسری قوموں کے علاقوں پر بھی دعوے داغ دیتے ہیں۔ ایسی طرز عمل کو شائستگی اور سیاسی بردباری کے خلاف سمجھا جاتا ہے کیونکہ کوئی بھی قومیت اپنے قومی اور تاریخی علاقوں سے دستبردار نہیں ہوگا اور اس کی شدید مزاحمت ہوگی اور ویسے بھی ان دعوؤں کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ 

محمود خان اچکزئی نے پہلے بھی ایک مطالبہ کیاتھا کہ پچاس لاکھ سے زائد افغان غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستانی بنایا جائے ان کو پاکستانی شہریت دی جائے مگر کیوں اور کن وجوہات کی بناء پر ،یہ محمود خان اچکزئی نے نہیں بتایا اور ان کے اس مطالبے پر پورے پاکستان سے شدید رد عمل کااظہار کیا گیا اوراس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔

سرد جنگ اور نائن الیون کے بعدسے لے کر آج تک پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات معمول پر واپس نہ آسکے اور اب افغانستان بھارت کی گود میں بیٹھا نظر آرہاہے اور بھارتی حکمرانوں کے احکامات کی تعمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔پاکستان میں غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد پچاس لاکھ سے زائد ہے اس لیے ماضی میں بھی حکمران اس مطالبے کو نفرت کے ساتھ مسترد کرتے آئے ہیں ۔ 

اسی طرح ہماری عسکری قیادت نے پہلے ہی ان تمام افغان باشندوں کو جو پاکستان میں رہتے ہیں ان کو سیکورٹی کے لئے شدید خطرہ قرار دیتے ہوئے ماضی کی حکومت کو یہ مشورہ دیاتھا کہ جلد سے جلد انہیں اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے تو اس کے بعد امن وامان کی صورت حال میں اسی فیصد بہتری آئی گی ۔

یہ افغان مہاجرین پاکستان کی کمزور معیشت پر زبردست بوجھ ہیں ان کی دیکھ بھال پر اربوں ر وپے ماہانہ خرچ ہورہے ہیں کوئٹہ کے ہر سرکاری اسپتال میں اسی فیصد مریض افغانی ہیں اور مقامی آبادی کا حصہ بیس فیصد ہے ، اتنی بڑی رقم ان کی صحت پر خرچ ہورہی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبائی حکومت کی صحت بجٹ کا پچاس فیصد کوئٹہ پر خرچ ہورہا ہے جہاں پر حکومت کے چھ بڑے اسپتال موجود ہیں اور ان میں اسی فیصد افغانی نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں انہوں نے دس لاکھ روزگار کے ذرائع پر قبضہ کررکھا ہے اگر ان کو واپس افغانستان بھیج دیا جائے تو یہ دس لاکھ روزگار مقامی افراد کو ملے گا۔ 

اس کے علاوہ افغانیوں کی کافی تعداد جرائم پیشہ ہیں ان میں سے کافی لوگ اسمگلنگ ‘ چوری ‘ ڈاکہ زنی اور اغواء برائے تاوان میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جتنے بھی خودکش بمبار تھے وہ تقریباً سب کے سب افغانی تھے اور انہوں نے ملک بھر میں دہشت گردی کی اور پچاس ہزار افراد سے زائد انسانوں کی جانیں لیں جن میں پانچ ہزارکے لگ بھگ سیکورٹی اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ 

بلوچستان کی سیاسی و قوم پرست جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ پختون صوبہ ان کے اپنے علاقوں پر بننا چاہئے مگر دیگر اقوام کی سرزمین پر نظر رکھناکسی طور قابل قبول نہیں ، ایسے بے ہودہ نعرے بازیاں دو برادر اقوام کو ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے متنفر کردے گاجس کا نقصان سبھی کو ہوگا۔ لہذا ایسے حساس موضوعات پر سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے ۔

بلوچ اور پختون سینکڑوں سالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آرہے ہیں ان کے درمیان نفرتیں پھیلانا عقل مندی نہیں بے وقوفی ہے ۔ محمود خان اچکزئی اگر واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہوتے اور بلوچستان میں شامل پختون علاقوں کو الگ کرکے علیحدہ صوبہ بنانے میں مخلص ہوتے تو گزشتہ حکومت کے دوران عملی طور پر اس پر کام کرتے لیکن شاید اس وقت انہیں حکمرانی عزیز تھی قومی مفادات نہیں، لہذا ’’ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘