|

وقتِ اشاعت :   December 5 – 2018

پچھلے دو ہفتوں سے میڈیا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کی طرف سے مقرر کردہ100 دنوں کے ہدف اور پارٹی کی طرف سے لیے جانے والے یو ٹرنز کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔پہلے ہم100 دنوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

اگر یہ سوچا گیا تھا کہ پی ٹی آئی اپنی حکومت کی بعض کامیابیوں کا ذکر کرے گی تو یہ غلط سوچ تھی،کیونکہ یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی صرف یہ معلوم کرنے کے لیے 100 دن کا وقت چاہتی تھی کہ اسے کیا کرنا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کو درپیش مسائل کے بارے میں اسے کچھ پتہ نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کی طرف سے2011 میں لاہور میں مینار پاکستان پر طاقت کے پہلے بڑے مظاہرے کے بعد میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ عمران کی قیادت میں ” کس چیز کو کس چیزسے” تبدیل کیا جائے گا۔کئی سال بعد جب وہ “سلیکٹ” ہو گئے تو بقول بلاول بھٹو،انھیں آگے کے راستے کا تعین کرنے کے لیے 100 دنوں کی ضرورت تھی۔یہ سو دن انھیں اصلاحات پر عمل درآمد شروع کرنے کے لیے درکار نہیں تھے جیسا کہ عام تاثر تھا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے 100 دنوں سے جو امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ پوری نہ ہو ئیں اور یہ بات ظاہر ہو گئی کہ پارٹی نے صرف ایک ہی مسئلہ یعنی کرپشن پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور سنگین معاشی چیلنجز کا غلط اندازہ لگایا۔

کرپشن واقعی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے مگر عوام کو یہ خواب دکھانا کہ وہ بیرونی ملکوں سے گیارہ بلین امریکی ڈالر ،جو پاکستانیوں نے وہاں رکھے ہوئے ہیں واپس لے آئیں گے ، محض باتیں ہیں۔اللہ ہی جانتا ہے یہ گیارہ بلین ڈالر کے اعداد و شمار کہاں سے لیے گئے ہیں۔26 ملکوں کے ساتھ Mutual Legal Assistance treaties (MLA) پر دستخط اور پارلیمنٹ کی طرف سے ان کی توثیق کے لیے ایک طویل وقت درکار ہو گا۔

اگرMLAs پر دستخط ہو بھی گئے تو پاکستان کو ان ملکوں کی عدالتوں میں ثابت کرنا ہو گا کہ اس کے سیاست دانوں اور کاروباری لوگوں نے اس رقم کی لانڈرنگ کی تھی۔کئی صورتوں میں یہ اثاثے قانونی ہو سکتے ہیں اور لوگوں کی طرف سے یہ قانونی طریقوں سے منتقل کئے گئے ہوں۔جن ملکوں میں یہ اثاثے موجود ہیں انھیں بھی یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ انھوں نے ان اثاثوں کے مالکان کو غیر قانونی آمدنی کے لیے محفوظ ٹھکانہ فراہم کیا۔

یہ صرف پاکستانیوں ہی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دوسرے ملکوں کے شہریوں کی طرف سے بھی کہیں زیادہ بڑی رقوم کی سرمایہ کاری کی گئی۔مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں ساری دنیا کے لوگوں کی طرف سے رئیل اسٹیٹ میں اربوں ڈالرکا سرمایہ لگا ہوا ہے۔

تاہم عمران خان کے نیک ارادوں اور ان کوششوں سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا جو وہ اس رقم کو واپس لانے کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔البتہ ، اس بارے میں شکوک موجود ہیں کہ وہ اپنی میعاد کے دوران اس کوشش میں کتنے کامیاب ہوں گے۔اس وقت حکومت کی جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر اس رقم کی واپسی کے لیے زیادہ امید نہیں لگائی جا سکتی۔

عمران خان اور تعجب کی بات ہے کہ ان کے مشیر اقتصادیات، اسد عمرکی بھی سادگی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر چہ یہ صاف ظاہر تھا کہ اخراجات جاریہ کا خوف ناک خلا ء،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے ایک ٹھوس پیکج کے بغیر پورا نہیں کیا جا سکتا انھوں نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ سخت شرائط کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔

مگر یہ باتیں اس وقت کی ہیں جب ان کے پاس حکومت نہیں تھی۔جب حقیقت نے ان کی آنکھیں کھولیں تو یہ ان کی طرف سے لیا جانے والا ایک بڑا یو ٹرن تھا۔انھوں نے اس بات پر غور نہیں کیا تھا کہ عبوری وزیر خزانہ شمشاد اخترنے جو ایک ذہین ماہر معاشیات ہیں ،ملک کی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے ا گلی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کر دی تھی۔

عجیب بات ہے کہ غربت ختم کرنے کے اقدامات کے بارے میں تمام تر خوش کن باتوں کے بعد عمران خان کی اپنے 100 دنوں کی کارکردگی والی تقریرکے اگلے ہی دن ڈالر کی قدر 133 روپے سے چھلانگ لگاکر 144 روپے کو چھوتی ہوئی دوپہر کو138 روپے پر آ گئی۔

یوں ایک ہی دن میں روپے کی قدر پانچ روپے کم ہو گئی۔شاید مارکیٹ کی طرف سے سخت رد عمل اور ایک ہی دن میں روپے کی قدر میں 10 ر وپے کی کمی کی مخالفت کے بعد اسٹیٹ بینک نے اسے 138 روپے تک لانے کے لیے انٹر بینک rates کو ٹھیک کیا۔پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے روپے کی قدر میں12 فیصد کمی آئی ہے۔اگست کے وسط میں جب حکومت نے حلف اٹھایا تو ایک ڈالر 123.25 روپے کا تھا۔تیل اور دوسری لازمی اشیاء کی درآمدات پر اس کا خود بخود بہت زیادہ اثر پڑے گا۔گزشتہ چند ماہ کے دوران افراط زر کی شرح ،جو اگست2018 میں 5.8 فیصد سے کم تھی اکتوبر2018 میں بڑھ کر 6.8 فیصد ہو گئی۔

اس بات کو ذہن میں رکھیئے کہ یہ اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس میں اضافہ ہے جو حساس قیمتوں کے اعشاریہ سے کہیں کم ہے اور یہ عام آدمی کو روزمرہ کی بنیاد پر متاثر کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے افراط زر کا باعث بننے والا ایک اور قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ ادھار کی انٹر بینک شرح بڑھا دی گئی ہے جس میں پی ٹی آئی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک مختصر عرصہ میں 2 فیصد اضافہ ہوا۔

اس کا اثر براہ راست مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی)کی شرح نمو پر پڑے گا ۔اب بعض تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ رواں مالی سال کے ختم ہونے تک یہ شرح گر کر4 فیصد سے بھی کم رہ جائے گی۔یہ اس سے پہلے کے ان اندازوں کے بر عکس ہے کہ جی ڈی پی کی افزائش 5.8 فیصد سے زیادہ رہے گی۔جی ڈی پی کی شرح نمو کو عام طور سے ایسا جادوئی عدد سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ فی کس آمدنی میں کمی بیشی اور ریونیو پروجیکشنز سمیت تمام معاشی اعشاریے جڑے ہوتے ہیں۔سود کی زیادہ شرحیں معیشت کو ہمیشہ سست کرتی ہیں اور اس کا نتیجہ گراوٹ کی صورت میں نکلتا ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنی پراگریس رپورٹ میں خود تسلیم کیا ہے کہ اس نے اپنے پہلے 100 دنوں کے لیے جو34 ہدف مقرر کیے تھے ان میں سے صرف18 حاصل ہو پائے۔یہ کامیابی بھی نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی ،جو موجودہ پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی کی نقل ہے،جیسے بعض سسٹمز وضع کرنے کے حوالے سے ہے۔ہر حکومت نے بینکوں کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ لوگوں کو مارگیج سہولت دی جائے اور بعض موقعوں پر اسٹیٹ بینک نے بھی یہ لازمی قرار دیا کہ قرضوں کا ایک مخصوص تناسب ہاؤسنگ سیکٹر کو دیا جائے۔تاہم بینک یا تو اس سے گریزاں رہے یا پھر مارگیج کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ عام آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

حکومت کو ملک میں ہاؤسنگ بڑھانے کے لیے نئے معاشی ماڈلز کا تجربہ کرنے کی بجائے خدا کی بستی اور نجی شعبہ کے تعاون کے ساتھ میونسپل کارپوریشن آف گریٹر ممبئی کے اختیار کردہ ماڈل جیسے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ کامیاب ماڈ لز کا جائزہ لینا چاہیئے تھا ۔ پورے ملک میں تجاوزات کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے نتیجہ میں کچھ اراضی قبضہ گیروں سے چھڑائی جا سکتی ہے مگر اس سے چھوٹا کاروبار کرنے والے بے روزگار بھی ہو رہے ہیں۔

یہ مہم کاروبار کی متبادل جگہ کی پیشکش کر کے اور مناسب نوٹس دینے کے بعد شروع کی جانی چاہیئے تھی ۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جہاں لوگوں کو ایک مختصر مدت میں ان مارکیٹوں کے قریب جہاں صارفین تواتر کے ساتھ آتے ہیں،متبادل جگہ دینا ممکن نہیں ہے وہاں کچھ لوگوں کو ایک یا دو ہفتوں کا نوٹس دے کر ہٹایا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے جن دوسری تمام اسکیموں کے بارے میں پرجوش طریقے سے باتیں کیں وہ نئی نہیں ہیں۔متعدد سابق حکومتیں مویشیوں اور پولٹری سیکٹر کی اعانت کے ذریعے غربت مٹانے کے لیے اس قسم کی اسکیموں کی بات کرتی رہی ہیں ۔جہاں تک یو ٹرن کے معاملے کا تعلق ہے تویہ میڈیا کی طرف سے بہت زیادہ اچھالا گیا ہے،آج کل لا تعداد چینلز کے پاس یہ فوٹیج موجود ہیں کہ سیاسی رہنما اب اس کے بالکل برعکس کر رہے ہیں جو انھوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے کہا تھا۔ 

اس مہم کا واحد فائدہ یہ ہے کہ اس سے سیاست دان اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت پر تنقید کے حوالے سے زیادہ ذمہ دار بن جائیں گے ۔بار بار یو ٹرن لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی لیڈر دور اندیشی اور ویژن سے عاری صرف وعدوں پر ٹرخانے والے ہیں۔

اب پی ٹی آئی کے رہنما یہ حوالہ دیتے ہیں کہ علامہ اقبال اور جناح صاحب نے بھی یو ٹرن لیے تھے۔اس کی وجہ بھی یہ سمجھنے کے ویژن اور قابلیت کا فقدان تھا کہ مذہب کے استحصال کے ذریعے قائم کیے جانے والے ملکوں کو انتہا پسند مذہبی قوتیں کھا جا تی ہیں۔