آج سے چند صدی قبل جب یورپ میں پریس (چھاپہ خانہ ) ایجاد ہوا تو اسلامی دنیا میں جیسے بھونچال سے آگیا تھا۔ فوراً ہی کفر کے فتوے جاری ہونے لگے اور اسلامی دنیا نے قریباً ڈیڑھ سو سال تک چھاپہ خانے کی ایجاد کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا۔
جس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ ہم یورپ سے ڈیڑھ صدی پیچھے چلے گئے اگر ترقی اور شعور کے بنیادی میزانیہ پر اس سانحے کوپرکھا جائے تو تقریباً یہی ڈیڑھ صدی تھی جس میں اندھیروں اور کیچڑ میں ڈوبا یورپ اسلامی دنیا سے کہیںآگے نکل گیا اور اسی ڈیڑھ صدی کا فرق ہم آج بھی کسی نہ کسی طور ہر میدان میں محسوس کرتے ہیں۔ شاید ہمای سرشت اور مزاج میں ہی کسی تغیر کو قبول اور برداشت کرنے کی صلاحیت یا مادہ کچھ کم رکھا گیا ہے۔
لاؤ ڈ سپیکر سے لے کر ٹی وی تک اور تصور سے لے کر تصویر تک ہرمعاملے میں ہمارا برتاؤ یکساں دکھائی دیتا ہے کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا بلوچستان میں جام کمال کی نئی حکومت کو ہے۔ غیر تو غیر اپنے بھی نجی محفلوں میں نئی انتظامیہ اور حکومت کو’’واٹس ایپ ‘‘ اور ’’ٹویٹر ‘‘ گروپ کے طعنے دیتے پھرتے ہیں اپوزیشن سیخ پا اور حامی شکوہ زن ہیں کہ یہ کیسا طرز حکومت ہے؟۔ اور لگتا یوں ہے کہ فی الحال ان دونوں میں سے کوئی بھی اس جدید طرز انتظامی کی افادیت او راہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
دفاتر کا بابو طبقہ جسے کلرک سے سیکریٹری کے دفتر تک سبز کاغذ پرتحریری نوٹ بڑھانے کی عادت تھی اور وہ سالہا سال سے اس دستی ( Mannual) طریقے کار کے عادی رہے ہیں۔ انہیں بھی یہ برقی تبدیلی کچھ خاص پسند نہیں آرہی کہ جس فائل کو چلنے اور وزیراعلیٰ تک پہنچنے میں ہفتوں لگ جاتے تھے۔ اتنے اہم معمولات ایک لمحے میں واٹس ایپ اور ٹوئیٹرکے ذریعے کیوں کر حل ہونے لگے ہیں۔
کچھ قانونی ماہرین اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ ان برقی پیغامات کی کوئی قانونی اہمیت بھی ہے یانہیں۔ اور کہیں کلرک یا افسر بے چارہ ایسے کسی میسج یا ٹویٹ پر عمل کرنے کی وجہ سے نیب یا عدالت کے شکنجے میں تو نہیں پھنس جائے گا۔ غرض چاروں طرف بد گمانیوں اور چہ مگوئیوں کی ایک یلغار ہے اور نئی حکومت اور انتظامیہ گو یا ایک چومکھی جنگ لڑ رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی جنگیں سدا سے قدامت اور جدت پسندوں کے درمیان لڑی جاتی رہی ہیں۔
جیت البتہ ہمیشہ سے ہی جدت پسندی کے حصہ میں آئی ہے کیونکہ جلد یا بدیر قدامت پسندوں نے نئی ایجادات کے سامنے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی ہے۔ لہٰذا جام کمال خان اور بلوچستان کی نئی انتظامیہ (سیاسی ) کو اس یلغار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں البتہ ضرورت ہے تو اپنی ٹیم کو ان جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس کرنے کی جس کی بنیاد انہوں نے خود ڈالی ہے۔اور انتظامی سطح پر اس نئی تبدیلی کے حوالے سے تربیت اور آگاہی مہم شروع کرنے اور مختلف جلسوں اور سیمینار وغیرہ کے ذریعے اس جدید طریقے کار کی افادیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خلیج مزید وسیع ترہوجائے۔
یاد رہے کہ کسی بھی گر وہ یا فرد کے ذہن کو بدلنے میں وقت لگتا ہے اور جو تنقید جدت پسندوں کے حصے میں آتی ہے وہ اس عمل کا حصہ ہے۔ شہباز شریف کو بھی پنجاب کی پہلی اور دوسری وزارت اعلیٰ کے دوران ایسی بے تحاشہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ شہباز شریف نے اسی فوری حل اور تیز تر مواصلاتی رابطے کے ذریعے پنجاب کی تاریخ میں کامیاب ترین حکومتوں میں سے ایک کاکریڈٹ اپنے نام کر رکھا ہے۔
بلوچستان حکومت کی اس چار رخی جنگ یا جدو جہد کا ایک زاویہ جدید الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ رابطے کا فقدان بھی رہا ہے۔ تین ماہ کے مختصر عرصہ میں کابینہ کے تین طویل ترین اجلاسوں کا انعقاد اور اس دوران تین اہم قانون سازیاں اور بل پاس کرو الینا بے شک صوبائی حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہے مگر صوبائی حکومت اور کابینہ کا یہ شکوہ بھی بجا ہے کہ قومی سطح پر الیکٹرانک میڈیا اور خبروں کے اہم اور بڑے چیلنجز نے نئی صوبائی حکومت کے فلاحی اقدامات کو وہ جگہ اور توجہ نہیں دی جس کے وہ مستحق ہیں۔
اس ضمن میں مقامی بیورو چیف ( ٹی۔ وی نیوز ) کے حضرات سمیت تمام اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان کے ساتھ بھی تفصیلی خیالات کا تبادلہ ہوا تو اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی کہ حکومتی سطح پر ایک مرکزی اور مستقل ترجمان سمیت مختلف شعبوں کی ترویج اور مشہوری کیلئے تین سے چار سیاسی شخصیات کی باقاعدہ ٹیم تشکیل دی جائے جو ہمہ وقت تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے نہ صرف رابطے میں رہے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اہم امور پر حکومتی مؤقف واضح کرنے کیلئے دستیاب بھی ہو۔
بلوچستان حکومت کے پاس اس وقت نئے مشیروں کی قابل ٹیم موجود ہے جسے وزیراعلیٰ کی منطوری کے بعد یہ اہم فریضہ سونپا جاسکتا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور نیوز چینل کا کاروبار فقط دو بنیادوں پر منحصر ہے۔ اشتہارات او ردرجہ بندی ( ریٹنگ ) اوربدقسمتی سے بلوچستان کی طرف سے الیکٹرانک خبری میڈیا کو یہ دونوں بنیادی عناصر کم ہی فراہم ہوتے ہیں۔
نیوز چینل ہمیشہ اس خبر کو زیادہ اہمیت اور جگہ دیتے ہیں جس سے ان کی درجہ بندی ( ریٹنگ ) مستحکم ہو اوراوپر جائے۔ اس کی ماضی میں ایک واضح مثال شعیب ملک اور ثانیہ کی شادی کی خبر اور بلوچستان کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ملنے والے انتظامی اختیارات کی خبر کے درمیان ریٹنگ کے تقابلی جائزے سے لیا جاسکتا ہے کہ جب دو میڈیا کے ستاروں کے درمیان ملاپ کی خبر نے اسی روز باقی تمام خبروں کو دھندلا کر رکھ دیا تھا۔
لیکن بحرحال یہ ایک حقیقت ہے ( چاہے تلخ ہی سہی ) کہ خبروں کے چینل کی اپنی ہی ترجیحات ہوتی ہیں۔ بلوچستان حکومت کو فوری طور پر الیکٹرانک میڈیا پر زیادہ وقت اور تشہیر کے لئے ایک نئی پالیسی اور حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے وقت بدل رہا ہے اور اس بدلتے وقت کے تقاضے نہ سمجھے گئے توہم دنیا سے مزید پیچھے رہ جائیں گے۔
آج کل یورپ اور امریکہ میں زیادہ تر بڑ ی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ’’گھر ہی دفتر ہے ‘‘ نامی نئے رواج کی بنیاد ڈالی جارہی ہے جس کا مشاہدہ راقم نے خود نیویارک میں ایپل کمپنی ( سافٹ ویئر )کے ملازمین کی شکل میں کیا۔ جو صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک اپنے ہی گھر کے کسی گوشے میں اپنے کمپیو ٹر ( لیپ ٹاپ ) کی سکرین کے ذریعے تمام دنیا کے دفتروں سے بذریعہ انٹر نیٹ نہ صرف منسلک رہتے ہیں بلکہ کم وقت میں اور انتہائی فوری طور پر اہم ترین فیصلے بھی لیتے ہیں ۔
اس طر ح کمپنی نہ صرف رہائش اور دفتر آنے جانے کے اخراجات اور وقت کا ضیاع بچا لیتی ہے بلکہ گھر کے پرسکون ماحول میں رہتے ہوئے ان کے ملازمین ذہنی طور پر بہترین مشاورت اور فیصلے کے ذریعے کمپنی کو بے تحاشہ منافع کمانے میں بھی مدد کررہے ہوتے ہیں۔
ہم ابھی فرسٹ ورلڈ کے ان مروجہ اصولوں اور طریقہ کار سے تو بہت دور ہیں۔ مگر پھر بھی جام حکومت نے نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایک مثبت سمت میں درست اور انتہائی اہم قدم اٹھایا ہے امید ہے کہ بلوچستان کے عوام بہت جلد اس نئی تبدیلی کے اثرات اور ثمرات سے بھی فیض یاب ہوں گے۔
تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اور بہار آنے کو ہے لیکن بہار آنے سے پہلے یہ تیز ہوا قدامت پسندی اور فرسودہ سوچ کے بہت سے بوسیدہ اور خشک پتوں کو گرا کر نئی کونپلوں کو پھوٹنے کا موقع فراہم کرے گی۔( انشاء اللہ )
بہا ر آ نے تک
وقتِ اشاعت : December 9 – 2018