|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2018

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ صوبے میں کرپشن کی اب مزید گنجائش نہیں،احتساب کا عمل تب مفید ہوتا ہے جب غلطی کو ابتدا میں ہی روک لیا جائے۔  ہماری پالیسیوں پر کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا انحصار ہے، ہمارے منصب کا تقاضا ہے کہ غلط کام کو انکار کریں، ذاتی مفادات کے بجائے مفادات عامہ کے فیصلے کرنا ہوں گے، گزشتہ 15 سال میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جو تباہی ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی۔وسائل کے باوجود پاکستان کا دوسرے ملکوں سے امداد لینا خود کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔ 

یہ بات انہوں نے ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب بلوچستان میں بدعنوانی کے خاتمے سے متعلق منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں تقریب ڈٰائریکٹر جنرل نیب بلوچستان عابد جاوید بخاری نے سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی اور کرپشن کے مختلف کیسز میں کئے گئے جرمانوں سے جمع شدہ 46 کروڑ 25 لاکھ روپے سے زائد کا چیک وزیراعلیٰ بلوچستان کے حوالے کیا۔ 

رکن صوبائی اسمبلی مبین خان خلجی، میئر کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن ڈاکٹر کلیم اللہ، مختلف محکموں کے سیکریٹری اور دیگر حکام بھی سیمینار میں شریک تھے۔ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان محمد عابد جاوید نے خطبہء استقبالیہ پیش کرتے ہوئے سیمینار کے اغراض ومقاصد اور بدعنوانی کی روک تھام اور خاتمے کے لئے اپنے ادارے کی کارکردگی اور کوششوں پر روشنی ڈالی۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے خطاب میں کہا کہ گزشتہ 15 سالوں میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر جو تباہی ہوئی اس کی مثال انہیں ملتی ،صوبے کی 15 سالہ پرانی اسکیمات کا بھی مکمل نہ ہونا سیاسی لوگوں کا قصور ہے۔کچھ افسران سیاسی دباؤ برداشت کرلیتے ہیں جبکہ دیگر انکار کر دیتے ہیں ،بیوروکریسی لاپرواہی کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کی چھان بین نہیں کرتی شرمندگی اس وقت ہوتی ہے جب ترقیاتی منصوبوں کی انکوائری کی جاتی ہے۔ 

جام کمال خان نے کہا کہ وزیراعلی انسپیکشن ٹیم نے 600 اسکیمات کی نشاندہی کی جو کاغذوں میں مکمل ہیں مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں، صوبے میں بدانتظامی سے کرپشن کو فروغ ملا اگر ہم خاموش رہے تو کبھی چیزیں درست نہیں ہونگی۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے ملازمین کا پینشن بل 23 ارب روپے ہے جو 2025 میں بڑھ کر 200 ارب روپے ہو جائے گا،صوبے کا ریونیو 15 ارب روپے اور 3 سو ارب دیگر ذرائع سے حاصل کرنا پڑتا ہیں ،بلوچستان حکومت کو 3 ارب ڈالر اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے درکار ہیں،مالی مشکلات میں پھنس گئے تو معاشرتی برائیاں بھی بڑھ جائیگی۔

جام کمال خال نے کہا کہ اسلام جبر کا مذہب نہیں اور دین اسلام میں مکمل ضابطہ حیات موجود ہے جس میں ایک دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے مکمل آزادی حاصل ہے، تاہم اپنی خواہشات کے تابع ہوکر ہم اس دائرہ کار سے باہر نکل جاتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ اسلام میں تنگی نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ غلط کام کرکے جھوٹ بول کر دوسرے کا حق مار کر اور کسی کی جان لے کر کہا جائے کہ اللہ غفورالرحیم ہے تو یہ سراسر اپنے آپ سے دھوکہ دہی ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ جب جھوٹی دلیلوں کے ساتھ انسان اپنے آپ کو مطمئن کرنے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو پھر برائی برائی نہیں لگتی اور نہ ہی اسے معیوب سمجھا جاتا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اسلام میں سزا اور جزا کا تصور موجود ہے، انسان اشرف المخلوقات ہے اور غلطی بھی انسانوں سے ہی ہوتی ہے تاہم برائی کو روکنے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے، کوئی انسان ہمیشہ اچھا یا ہمیشہ برا نہیں ہوسکتا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ جوانی کے بعد انسان بوڑھا اور کمزور بھی ہوجاتا ہے، اور جو انسان برائی روکنے کی کوشش ہی نہیں کرتا بلکہ اس کا حصہ بنا رہتا ہے عمر کے آخری حصے میں وہ پچھتاوے کا شکار رہتا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ محنت اور کوشش کرنے والے لوگ قابل تعریف ہوتے ہیں جنہیں اللہ کی پسندیدگی بھی حاصل ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں، ماضی کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کے باعث زیرتکمیل منصوبوں کا تھرو فارورڈ 400ارب روپے ہے جن میں کئی منصوبے گذشتہ دس سالوں سے نامکمل ہیں جبکہ پرانے منصوبے مکمل کئے بغیر پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبے شامل کئے جاتے رہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وزیراعلیٰ معائنہ ٹیم نے چھ سو سے زائد منصوبوں کا معائنہ کیا جن میں سے کئی منصوبے کاغذوں میں مکمل ہوچکے ہیں لیکن یا تو زمین پر ان کا وجو ہی نہیں یا یہ تاحال نامکمل ہیں انہوں نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ افسروں پر سیاسی دباؤ ہوتا ہے لیکن افسر بہتر حکمت عملی کے ساتھ اپنے آپ کو اس دباؤ سے نکال سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کی مالی معاملات جس طرح خرابی کی طرف جارہے ہیں اس کا اثر سب پر پڑے گا، معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہوگا اور انتشار اور انارکی کی فضا پید ا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جس میں تمام وسائل موجود ہیں لیکن پھر بھی ملکی معیشت کا انحصار بیرونی قرضوں پر ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں بھی وسائل کی کمی نہیں صرف گڈ گورننس کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہم تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی پسماندگی اور غربت کا شکار ہیں وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان ہمارا گھر ہے اور ہم سب نے یہیں رہنا ہے ہم اپنے گھر کے ساتھ اچھا کریں گے تو سب کے لئے اچھا ہوگا اور برا کریں گے تو سب کے لئے برا ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ گورننس سٹرکچر سب سے بڑا مسئلہ ہے، بدقسمتی سے گورننس کو بہتر بنانے کی بجائے مصنوعی سیاست کا سہارا لیا گیا، بازارمیں بیٹھ کر چائے پینا اور جھاڑو پکڑ کر صفائی کرنا وزیراعلیٰ کا کام نہیں ہے اس طرح تبدیلی نہیں آتی، مسائل کا پائیدار بنیادوں پر حل گڈ گورننس کے ذریعہ ہی ممکن ہے، اگر ہم اچھا کام کریں گے تو میڈیا خود ہی ہمیں اہمیت دے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمیں بدعنوانی اور مس مینجمنٹ کو اس کے آغاز سے ہی قابو کرنا ہوگا، سیکریٹری ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کانظام بنائیں اور خود بھی منصوبوں کا معائنہ کرتے رہیں، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں کی نگرانی کی ذمہ داریاں دی ہیں جس سے ان میں بہتری آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر افسران خوش نیتی اور جرات مندی کے ساتھ کام کریں تو نیب یا کوئی ادارہ ان کے خلاف کاروائی نہیں کرے گا، صوبے کو بہتر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ 

دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے پاکستان میں اقوام متحدہ کی سفیر برائے سماجی شعبہ پروفیسر غزنہ خالد نے بدھ کے روز یہاں ملاقات کی اور ان سے خشک سالی سے متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں اور سماجی شعبہ میں اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی معاونت کے حوالے سے امور پر تبادلہ خیال کیا۔ 

صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان، رکن صوبائی اسمبلی مبین خان خلجی اور وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی میر رامین محمد حسنی بھی اس موقع پر موجود تھے، اقوام متحدہ کی سفیر نے کہا کہ انہوں نے خشک سالی سے متاثرہ چاغی اور نوشکی اضلاع کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا ہے اور ان کا ادارہ متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیوں میں فنی معاونت اور ہر قسم کی مدد کے لئے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم، صحت اور غذائیت کے شعبہ میں بھی صوبائی حکومت کی معاونت کی جائے گی، اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صوبے کے نو سے زائد اضلاع خشک سالی کا شکار ہوئے ہیں، صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کی امداد وبحالی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے جبکہ تعلیم، پانی اور غذائیت کے شعبوں میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت خشک سالی کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور مستقبل کے متوقع چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جامع منصوبہ بندی کررہی ہے، انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی سماجی معاونت کے لئے صوبائی حکومت نے انڈومنٹ فنڈ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت غریب لوگوں کو علاج معالجہ سمیت دیگر امور میں مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔

ملاقات میں خشک سالی، غذائیت کی کمی اور دیگر سماجی مسائل سے موثر طور سے نمٹنے کے لئے ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز سے اتفاق کیا گیا جس میں متعلقہ وفاقی وصوبائی ادارے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے اور ڈونرز ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوں گے۔ ٹاسک فورس ایمرجنسی پلان اور عملدرآمدی منصوبہ بندی تیار کرے گی جس کے لئے ایف سی اور پاک فوج کی معاونت بھی حاصل کی جائے گی۔