|

وقتِ اشاعت :   December 18 – 2018

آپ سے کوئی سوا ل کرے کہ آپ نے کبھی بس کا سفر کیا ہے؟ تو آپ کا جواب ہاں میں ہی ہوگا لیکن پوچھا گیا سوال آپ کو انتہائی غیرضروری لگے گا۔ اگر یہی سوال زندگی سے متعلق کیا جائے تو آپ یادوں کے جھروکوں میں چلے جائیں زندگی کا آغاز آپ نے کب اور کیسے کیا تھا بے سروسامانی کے عالم میں کہاں کہاں سفر کرتے رہے کیا کھویا کیا پایا بس پھر آپ کا وقت یادوں کا خزانہ چھان مارنے میں گزر جائے۔

زندگی بھی تو ایک سفر ہی ہے بس اس کی اسٹیرنگ پہ ہاتھ رکھ کر نہ جانے اسے کہاں کہاں دوڑانا نہیں پڑتا۔ کچی پکی راہ گزر پہ دوڑاتے دوڑاتے ہمیں خود بھی یاد نہیں پڑتا کہ ہم نے سفر کا آغاز کہاں سے کیا تھا اور ہمیں جانا کہاں ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ زندگی کے اس سفر کو آسان بنانے کا فارمولہ ہم خود طے کرتے ہیں،وسیلے ڈھونڈتے ہیں۔ 

چھوٹی اور بڑی منزلوں تک پہنچنے کے لیے مسافتوں کا تعین کرتے ہیں مسافتوں کو طے کرنے کے لیے کبھی پیدل، تو کبھی سائیکل، کبھی موٹر سائیکل، کار، بس، ریل، ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ زیرِ استعمال لاتے ہیں۔ 

آپ نے دیکھا ہوگا کہ سائیکل سوار کی رفتار پیدل شخص کی رفتار سے ذرا تیز ہے۔ اسی طرح موٹر سائیکل سوار کی رفتار سائیکل سوار سے ، کار سوار کی رفتار موٹر سائیکل سوار کی رفتار سے، غرض رفتار کا تعین انسان سے نہیں بلکہ دستیاب وسائل اور سواریوں سے کیا جا سکتا ہے۔ 

ورنہ دوڑ کے مقابلوں میں جیتتا وہی ہے جس کے قدموں کی رفتار تیز ہو۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ منزل کا تعین کیے بغیر گھر سے باہر نکلنے کو آپ کا قدم ساتھ دیں گے اور نہ ہی گاڑی یا موٹر سائیکل کا پیہہ گھوم سکتا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے آپ کو جس رفتار کی ضرورت ہوتی ہے اسے آپ کے پاس موجود وسائل یا جسمانی ساخت ہی پورا کر سکتا ہے۔ فرض کیجیے اگر آپ بس میں سفر کر رہے ہیں تو یقیناًمنزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے آپ نے وقت کا تعین کیا ہوگا۔ 

دورانِ سفر آپ کا بخوبی مشاہدہ ہوگا کہ بعض افراد منزل کے حصول کے لیے بے چینی کا شکار ہوجاتے ہیں بعض ایسے بھی ہیں کہ ان کی پوری سفر نیند میں گزر جاتی ہے بعض ایسےْ بھی ہیں کہ ان کا سفر مکالموں، مباحثوں، ہنسی مذاق میں گزر جاتی ہے۔ 

غرض اندازِ سفر اپنا اپنا۔ جنہیں منزل تک پہنچ جانے کی جلدی ہوتی ہے وہ کبھی ڈرائیور کو کوستے ہیں کبھی بس کی سست رفتاری کی شکایت لگاتے ہیں توکبھی راستے کی خرابی پہ شکوہ کناں۔ سفر ہے دورانِ سفرمنظر نامہ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔ بس کسی ویرانے میں خراب بھی ہو سکتی ہے راستہ بند بھی ہو سکتا ہے۔

تو کیا آپ بددل ہوجائیں سفر ترک کر کے واپسی کے لیے رختِ سفر باندھ لیں۔یقیناًہرگز نہیں کریں گے۔۔ بجائے اپنے آپ کو کوسنے یا حکومتِ وقت یا بس مالکان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے، یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نے انہی حالات کو سیکھنے کے مراحل سے گزارنا اور نمٹنا ہے اور حالات کو اپنے لیے سازگار بنانا ہے۔ 

دوستو زندگی کے اس سفر میں زندگی کی اسٹیرنگ آپ کے ہاتھوں میں ہے منزل کا تعین آپ نے ہی کرنا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے آپ کو حالات کا جائزہ خود ہی لینا ہوگا۔ مشکلات سے خودنمٹناہوگا۔ اپنے آپ سے لڑنا ہوگا۔ گو کہ آپ کو منزل تک پہنچنے کے لیے پر خطر راہوں اور چیلنجز کا سامنا ہے لیکن جن راہوں کا تعین آپ نے کیا ہے اس کے لیے سفر لازم ہے۔ آپ نے اپنے ذہن میں یہ خیال ضرور لانا ہے کہ آپ کا منزل دور ہی سہی لیکن آپ کی مستقل مزاجی، حالات کا مقابلہ ہی اسے نزدیک لا سکتی ہے۔ تو دوستو آپ میں سے ہر ایک کی زندگی ایک دوسرے سے مختلف ہے ہر ایک دوسرے سے ایک الگ کہانی رکھتی ہے۔ 

نہ جانے زندگی کا یہ سفر کب اپنے منزلِ مقصود تک پہنچ جائے اس سے پہلے آپ نے زندگی کے اس سفر کو عنوان ضرور دینا ہے۔۔ سفر اپنا اپنا منزلیں اپنی اپنی ، گاڑیاں اپنی اپنی راستے اپنے اپنے۔۔۔ زندگی کی گاڑی بس چلتی رہے۔