|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کا اجلاس میڈیاہاؤسز سے ملازمین کی جبری برطرفیوں کیخلاف قرارداد متفقہ طور پر منظورایوان نے صحافیوں کی برطرفی کے عمل کو غیر قانونی و غیر آئینی قرار دیتے ہوئے میڈیا ہاؤسز سے برطرف ملازمین کو فوری بحالی سمیت ملازمتوں کے مستقل بنیادوں پر تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے وفاقی حکومت سے رجوع کرنے کا فیصلہ صحافیوں نے جبری برطرفیوں کیخلاف ایوان کی کوریج کا علامتی بائیکارٹ کرکے اسمبلی گیٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ۔

گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صحافی اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے جس پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اسمبلی اجلاس میں نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہاؤسز سے یکے بعد دیگرے لوگوں کو فارغ کرنے کا عمل تشویشناک ہے ۔

موجودہ حکومت نے عوام کو ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر یہاں حالت یہ ہے کہ لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے ہمیں اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے اور میڈیا ہاؤسز کو بتادینا چاہئے کہ آپ مہربانی کریں ہمارے لوگوں کو بے روزگار نہ کریں پہلے سے ہمارے صوبے میں بے روزگاری ہے ۔

جمعیت کے سید فضل آغا نے کہا کہ پہلے بھی ہم اس حوالے سے اس فلو رپر بات کرچکے ہیں پہلے اگر20لوگ تھے تو اب 60ہوگئے ہیں ہمارے صوبے کومیڈیا میں بالکل ہی نظر انداز کیا گیا ہے خشک سالی کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک اور امن وامان سمیت دیگر مسائل ہمیں کوریج نہیں ملتی یہ صورتحال تشویشناک ہے کہ اخبارات مسلسل لوگوں کو فارغ کررہے ہیں اور ہم صوبے کی جانب سے ان اخبارات کو اشتہارات بھی دیتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سپیکر اس حوالے سے باقاعدہ رولنگ دیں اور وہ اخبارات جنہو ں نے صوبے کے لوگوں کونکالا ہے ان کے اشتہارات بند کردیئے جائیں ، سپیکر چیمبر سے انہیں ایک خط لکھاجائے اور ایوان سے قرار داد پاس کی جائے ۔

جے یوآئی کے اصغرعلی ترین نے کہا کہ یہ افسوسناک سلسلہ ہے جس میں مزید تیزی آرہی ہے صحافیوں نے ہمیں بتایا ہے کہ ان کے کئی سال ضائع کردیئے گئے اور انہیں بلا وجہ نوکریوں سے فارغ کیا جارہا ہے اس مسئلے پر صوبائی حکومت کووفاقی حکومت سے بات کرنی چاہئے ۔ 

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ خان زیرے نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا دعویٰ کیا مگر افسوس کہ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے بڑے بڑے اخبارات جنہیں سالانہ کروڑوں روپے کے اشتہارات صوبائی حکومت دیتی ہے وہ لوگوں کو دھڑا دھڑفارغ کررہے ہیں جن لوگوں کو نکالا گیا ہے وہ اب کہاں جائیں گے انہوں نے بھی اس حوالے سے قرار داد لانے اور پاس کرنے کی تجویز دی۔

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ صحافی صوبے کے مسائل اجا گر کرتے ہیں صحافی ہمارے صوبے کا سیاسی ، سماجی اور معاشی موقف اجاگرکرتے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جنہیں فارغ کیا گیا ہے وہ کیا کریں گے وہ نہ تو مرغیاں پال سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں ۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن صحافیوں کو نوکریوں سے برخاست کیا گیا ہے وہ غیر قانونی و غیر آئینی عمل ہے میڈیا کے ملازمین کو اس بے قدری سے نکالنا جمہوریت اور تمام روایات کے منافی قدم ہے ۔

یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ صوبے کے صحافیوں کی ملازمتوں کو فی الفور بحال اور ان کی ملازمتوں کو مستقل بنیادوں پر تحفظ دینے کو یقینی بنائے ۔ صوبے میں صحافیوں کو ملازمتی تحفظ کی فراہمی کے معاہدے تک صوبائی حکومت بڑے میڈیا گروپس کے اشتہارات پر مکمل پابندی لگائے تاکہ صوبے کے صحافیوں میں پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے ۔

بعدازاں سپیکر نے ایوان کی رائے سے قرار داد منظور ہونے کی رولنگ دی۔ قبل ازیں میڈیا ہاؤسز سے ملازمین کی جبری برطرفیوں کیخلاف صحافیوں نے بلوچستان اسمبلی کی کارروائی کا بائیکارٹ کرتے ہوئے اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

مظاہرے کے شرکاء سے پی ایف یو جے کے سینئر رہنماشہزادہ ذوالفقار کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر سے معاشی بحران کو جواز بنا کر سینکڑوں ملازمین کو نہ صرف برطرف کیا گیا ہے بلکہ برطرفیوں کے اس عمل میں مزید تیزی لائی جارہی ہے ۔