|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2018

کوئٹہ:  وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ انفرادی طور پر کوئی بلوچستان کا مالک نہیں بن سکتا ہم نے تمام فیصلے بلوچستان کے مفاد میں کئے ہیں کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ یا قانون سازی حکومت کے مفاد میں نہیں کی ہم عوام کی خود مختاری پر بھروسہ کرنیوالے لوگ ہیں ہم نے 20ہزار ملازمتوں کا اعلان کیا ہے ہم اپوزیشن کے کردار میں مداخلت کر سکتے ہیں اور نہ ہی چھین سکتے ہیں ۔

اپوزیشن ہماری غلطیوں پر تنقید کرے مگر ہم پر انفرادی طور پر ذاتی حملے نہ کرے حکومت کے ساڑھے تین ماہ کے دور میں کابینہ کے جتنے اجلاس ہوئے اتنے بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں نہیں ہوئے۔ہم نے وہ قوانین منظور کر کے اسمبلی میں بھیجے جو ماضی میں نہیں کئے گئے۔ 

گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعلی جام کمال خان نے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ کو منتخب ہونے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی میں ہاؤس ادھورا رہتا ہے ہم شروع دن سے اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کی بات کر رہے تھے تا کہ اسٹینڈنگ کمیٹیوں کا قیام بھی عمل میں لایا جا سکے کیونکہ اپوزیشن لیڈر اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی عدم موجودگی میں ایوان کی کارروائی ادھوری رہ جاتی ہے ۔

انہو ں نے کہا کہ یہاں موجود تمام ارکان نے اپنے حلقوں میں کام کئے ہوتے ہیں تو انہیں عوام منتخب کر کے یہاں بھیجتے ہیں میں نے کبھی ضلع کو نہ ہی ریاست سمجھا اور نہ ہی میں نے کبھی بلوچستان میں ایسا تاثر دیا ہے کہ یہ کوئی میری ذاتی ملکیت ہے ۔

میرے دوست شاید لسبیلہ سے واقف نہیں ہیں اورا ب لوچستان کے حالات سے بھی شاید واقف نہیں ہیں میں ان کو دعوت دونگا کہ وہ میرے ساتھ ایک مہینے کا وقت لسبیلہ میں گزاریں تا کہ انہیں یہ معلوم ہو کہ ہم نے لسبیلہ میں کوئی ایسا طریقہ کار نہیں رکھا ہے نہ میں نے ‘ نہ میرے والد اور نہ ہی میرے دادا نے ایسا کچھ رکھا ۔

وزیر اعلی نے کہا کہ ہم عوام کی خود مختاری پر بھروسہ کرنیوالے لوگ ہیں اور اس کی مثال ہم نے ہمیشہ چالیس پچاس سال میں دی ہے جو شاید انہیں بھی پتہ ہے اپوزیشن کا ایک رول ہوتا ہے اپوزیشن اپنے کردار کو جس طرح آگے بڑھانا چاہے یہ اْن کا اختیار ہے ہم اپوزیشن کے کردار میں مداخلت کر سکتے ہیں اور نہ ہی چھین سکتے ہیں ۔

اس اسمبلی سے اس طرح کی باتیں جائیں گی جو شاید بلوچستان کی روایات کے بر عکس ہوں یہ غلط پیغام ہوگا وزیر اعلی نے کہا کہ جب ہم نے اسمبلی میں حلف اٹھایا تو ملک کے مختلف علاقوں سے دوست آئے اور انہوں نے بڑے اچھے انداز میں بلوچستان اسمبلی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ بلوچستان کا یہ ماحول ہوگا ہم سمجھ رہے تھے کہ بلوچستان ا سمبلی میں بھی ہنگامہ آرائی ہو گی بد کلامی ہوگی ۔

لیکن ہمیں تعجب ہوا کہ ہمیں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا جب پنجاب سندھ اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں میں دیکھنے میں آتا ہے تو میں نے اپنے دوستوں کو یہ جواب دیا کہ بلوچستان کے رہنے والے لوگ غریب و پسماندہ ہیں بلوچستان کے لوگ اپنی تہذیب و ثقافت میں بہت بڑا پن رکھتے ہیں ۔

وزیر اعلی نے کہا کہ ہم نے اپنی اقدار کو زندہ رکھنا ہے ایوان میں مسائل پر ضرور بحث ہو ایک دوسرے کو دلائل کے ذریعے قائل کرنیکی کوشش کریں ہماری غلطیوں پر تنقید کی جائے ہم کبھی اس کا برا نہیں منائیں گے ۔

لیکن اگرہم انفرادی طور پرذاتی حملے کریں گے تو ٹھیک نہیں ہوگا میں بھی اختیار رکھتا ہوں اور اپنے فیصلے کر سکتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایسا ماحول نہیں کرنا چاہئے بلکہ مسائل پر بات ہونی چاہئے اور کارکردگی پر بات کی جائے ۔

انہو ں نے کہا کہ ہماری حکومت نے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی تفصیل میں نہیں جاؤنگا لیکن صرف ساڑھے تین ماہ کے دور میں کابینہ کے جتنے اجلاس ہوئے وہ بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں نہیں ہوئے۔

تین ماہ تو کجا پانچ سال میں بھی اتنے کابینہ کے ایجنڈا کی منظوری نہیں دی گئی ہو گی جو ہم اب تک دے چکے ہیں ان اجلاسوں کے ایجنڈوں میں بلوچستان کے مسائل پر کھل کر بات کی گئی ہم نے وہ قوانین منظور کر کے اسمبلی میں بھیجے جو ماضی میں نہیں کئے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ انفرادی طور پر کوئی بلوچستان کا مالک نہیں بن سکتا اس قانون کی سب سے تعریف کی انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین سے متعلق اپوزیشن اور دیگر جماعتوں کی جانب سے باتیں کی جاتی تھیں کہ بلوچستان کو فروخت کر دیا گیا ہے بلوچستان کی زمین بیچ دی گئی ہے آنیوالا بلوچستان بیرون ممالک کے ہاتھوں میں ہوگا ۔

لیکن اب جب بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی کے حوالے سے یہ بل آئیگا تو پھر کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ بلوچستان کی زمین کوئی خرید سکے گا ہم کہتے ہیں کہ جو طریقہ کار دنیا میں ہے اس کے تحت آئیں کرایہ دار بنیں لیز پر زمین لیں لیکن ملکیت کسی غیر ملکی کی کبھی نہیں ہو سکے گا۔

وزیر اعلی کا کہنا تھا کہ صحت کے بہت سے قوانین ہم نے متعارف کرائے ریونیو ایکٹ میں صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تاریخ کی گئی ہر خاتون کو اْس کی جائیداد میں شرعی حق فورا‘ ‘ ملے گا ۔

بلوچستان لازمی سروسز 2018میں تعلیم اور صحت دونوں آتی ہیں اس کی ہم نے کابینہ سے منظوری کرائی ہے صحت کے شعبے میں بہتری میں جتنے قوانین ہیں وہ ہماری کابینہ نے منظور کرائے ہیں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام جو صرف ضلعی ہیڈ کوارٹرز کیلئے تھا ہم نے اس میں ترمیم کی کہ ہر ضلع کے گاؤں میں بھی اگر ضرورت ہو تو ترقیاتی کام کرائے جا سکیں گے ۔

اس سے پہلے منصوبوں کی منظوری کیلئے کوئٹہ تک آنا پڑتا تھا آج اْسی ڈسٹرکٹ میں یہ تمام کام ہو نگے انہوں نے کہا کہ ہم نے 20ہزار ملازمتوں کا اعلان کیا ہے جن پر ماضی میں صرف باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن ہم عملی اقدامات کر رہے ہیں اور ان ملازمتوں کے حصول کیلئے کسی کو کوئٹہ آنیکی ضرورت نہیں ہوگی ۔

بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ روز گار کا ہے درجہ چہارم کی ملازمتوں کیلئے بھی لوگوں کو کوئٹہ آ نا پڑتا ہے اب ضلع کی سطح پر کمیٹیاں ہونگی جو بھرتیوں کی مجاز ہونگی اور پہلی مرتبہ ہم نے یہ قانون بنایا ہے کہ درجہ چہارم کی اسامی کیلئے اْس کا تقرر ہوگا جس کا اْس گاؤں سے تعلق ہو گا اس سے بڑا روز گار میں ہم کیا حق دے سکتے ہیں۔

وزیر اعلی نے کہا کہ نیوٹریشن پالیسی بنائی ہے 70سے زائد ایجنڈے جن میں زیادہ تر قوانین تھے ہم نے کابینہ سے منظوری لی بلوچستان میں بلڈنگ ایکٹ کوڈ 1937کا بنا ہوا ہے جس میں آج تک کسی نے کوئی تبدیلی نہیں کی دیہی علاقوں کا بلڈنگ کوڈ1979کا بنا ہوا ہے مگر اب کابینہ نے یہ ایکٹ 2018میں منظور کیا اور اب ہمارے بلڈنگ کوڈ نئے بن رہے ہیں ۔

سریاب کے نواحی علاقوں کو ہم نے کوئٹہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن میں شامل کرایا ماضی میں کسی حکومت نے یہ کام کیوں نہیں کیا مائننگ لیز کی پالیسی تبدیل کی جا رہی ہے جو 2002سے کسی نے تبدیل نہیں کی تھی پی ایس ڈی پی کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا تھا پہلی بار موجودہ حکومت اس کو ٹھیک کر رہی ہے ہم یہ سب کچھ اپنے لئے نہیں کر رہے بلکہ صوبے کیلئے کر رہے ہیں ۔

پبلک سروس کمیشن کا ماضی میں کوئی طریقہ کار نہیں تھا لیکن پہلی مرتبہ پبلک سروس کمیشن سے متعلق قانون سازی اسمبلی میں آئیگی یہ وہ ادارہ ہے جس نے بلوچستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ہم نے طریقہ کار طے کرنا ہے کہ اس کے ممبران کون ہونگے ان کی اہلیت تعلیم کیا ہو گی اس کا ممبر ایک طریقہ کار سے منتخب ہوگا اس کی مدت ملازمت بھی طے ہو گی اخبارات میں مشتہر کریں گے قابل لوگ آگے آئیں گے ہر ڈویڑن کو پہلی مرتبہ سیٹ دے رہے ہیں ۔

پہلی مرتبہ دو خواتین کو کمیشن میں نمائندگی دی جائیگی جو کام ہم نے ساڑھے تین ماہ میں کئے ہیں کوئی بتائے کہ ماضی میں کسی حکومت نے دس سال میں یہ کام کئے ہم نے تمام فیصلے بلوچستان کے مفاد میں کئے ہیں ہم نے کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ یا قانون سازی حکومت کے مفاد میں نہیں کی گوادر میں ڈیڑھ لاکھ ایکڑ زمین کی اگر تحقیقات ہو رہی ہے تو ہماری حکومت کرا رہی ہے ۔

پچاس ہزار ایکڑ زمین پسنی میں آئل کے حوالے سے دی گئی وہ ہماری حکومت نے نہیں دی مگر ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں تربت میں زمینوں کے معاملات پہلی مرتبہ ہماری حکومت کھول رہی ہے حلقہ بندیوں ‘نئی یونین کونسلز اور اضلاع کے قیام سے متعلق بھی ہم قانون سازی کر رہے ہیں اور یہ سب امور کابینہ کے اجلاس میں دس دس بارہ بارہ گھنٹے چلتے رہے اور وہاں سے قانون سازی منظور کر کے اس ایوان میں بھیج رہے ہیں ہم اپنے وعدوں سے انحراف نہیں کریں گے ۔

ہم نے بلوچستان کے مفاد میں فیصلے کرنا ہیں جس سے سب فائدہ اٹھائیں گے ماضی میں صوبے کے ساتھ جو کچھ کیا گیا وہ ہم کو پتہ ہے۔ہم کہتے ہیں کہ پندرہ سال کے پی ایس ڈی پی نکالیں سب کچھ سامنے آجائیگا ہم اپنے احتساب کے حوالے سے سب کچھ خود کر رہے ہیں ۔

سی ایم آئی ٹی کی ٹیمیں صوبے بھر میں جا رہی ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لے رہی ہیں آٹھ سال سے اسی فیصد منصوبوں پر کام کے باوجود فنڈز روکے گئے تھے ان کیلئے ہم نے فنڈز جاری کئے ماضی میں آنیوالی حکومتوں نے پرانے منصوبوں پر کام روک کر نئے منصوبے بنائے اور پھر دونوں مکمل نہ ہوسکے ہم کہتے ہیں کہ عوام کے مفاد میں منصوبوں کو مکمل ہونا چاہئے موجودہ حکومت کا ایک میکنز م ہے جس کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں ہمارا مقصد بلوچستان کو بہتر بنانا ہے ۔

سی پیک کی باتیں کی جا رہی ہیں ماضی میں تو کسی نے سی پیک کے بارے میں بیان تک نہیں دیا ہم نے دیا ہم نے کہا کہ سی پیک میں بلوچستان کے مفاد میں ہے کیا بلوچستان کو سی پیک میں صرف ڈھائی پرسنٹ ملا ہے اور صرف دو سکیمیں ہیں گوادر پورٹ اور کول پاور کے منصوبے ہیں مگر مغربی روٹ کہیں نہیں مگر مغربی روٹ کی تختیاں لگائی جاتی رہیں ہم نے تو یہ نہیں لگائی پہلی دفعہ آپ کے شہر کے اندر غیر قانونی و غیر معیاری لیبارٹریز کو بند اور صفائی کی جا رہی ہے ۔

ماضی کی حکومت نے پٹ فیڈر کے ذریعے پانی اور ماس ٹرانزٹ کی ناقص سکیمیں بنائیں یہ منصوبے تو ہم نے نہیں بنائے یہ سب منصوبے حکومت بلوچستان نے منظور کرائے تھے ہمارے دوست جن چیزوں کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ میں سمجھ بھی رہا ہوں کوئی بھی فیصلہ ایک دن میں نہیں ہوتا ہم پوائنٹ سکور نہیں کرنا چاہتے ۔

ہم محنت کر رہے ہیں حکومت اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی ہے اور ان کو پوری بھی کریگی اپوزیشن نکتہ چینی ضرور کرے وہ اْن کا حق ہے ہم کہتے ہیں کہ اسٹینڈنگ کمیٹیاں بنائیں اْس میں وزرا اور افسران کو بلائیں ہم سب کو جواب دیں گے۔

قبل ازیں صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کو بلوچستان کی مثبت تصویر کشی کرنی چاہئے سرمایہ کار بلوچستان میں سرمایہ کاری کے لئے تیار بیٹھے ہیں اگر ہم صوبے کی ایسی تصویر کشی کریں گے تو وہ یہاں آنے سے پہلے وہیں سے بھاگ جائیں گے ۔

ثناء بلوچ نے سردار عبدالرحمان کھیتران کا جواب دیتا ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حقائق اورتکالیف سے آنکھیں بند کرکے کیسے مثبت تصویر کشی کریں بلوچستان کی تکالیف اتنی زیادہ ہیں کہ آنکھیں نم ہوجاتی ہیں مثبت اعمال کی بدولت ہی مثبت منظر کشی کی جاسکتی ہے ۔

سابق حکومتوں کے اعمال اتنے اچھے نہیں رہے بلوچستان میں307کلو میٹر پر ایک گرلز سکول واقع ہے 28کلو میٹر پر ایک پرائمری سکول 50ہزار سکول چھت سے محروم ہیں 50ہزار سکول ایک کمرے پر محیط ہیں پانچ ہزار سکول ایک ٹیچر پر مشتمل ہیں ۔

سی پیک میں7ارب روپے میں سے صرف صفر اعشاریہ چار فیصد حصہ بلوچستان کو ملا ہے 75فیصد آبادی بنیادی سہولیات سے محروم ہے 18لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں ہمارے حلقوں میں مداخلت ہورہی ہے لاپتہ افراد کی مائیں اور بہنیں سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

آرمی چیف ، وزیر دفاع اور حکومت بلوچستان اس مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھ رہی ہے ۔ ایسے میں وزیر موصوف بتائیں کہ ہم کیسے مثبت منظرکشی کریں ثناء بلوچ نے وزیراعلیٰ کو ہدف بناتے ہوئے کہا کہ ہم بلوچستان اسمبلی میں برابر کے سٹیک ہولڈرز ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان والی لسبیلہ تو ہوسکتے ہیں ۔

والی بلوچستان نہیں بلوچستان کو اپنی ریاست سمجھ کر نہ چلائیں حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا تو ہم حکومت کو چلنے نہیں دیں گے اورپھر اسمبلی میں دما دم مست قلندر ہوگا ہم انگوٹھا چھاپ نہیں اپنی آئینی و قانونی حیثیت جانتے ہیں کسی کو اختیار نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے حلقوں میں مداخلت کریں۔ 

صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ ہم جمہوریت کے قائل ہیں جس کو دما دم مست قلندرکرنا ہے کرلے ہم اس کے لئے تیار ہیں ۔اجلاس میں وزیراعلیٰ بلوچستان کی تقریر کو مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہوئے پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے کہا کہ اب ہم دیکھیں گے کہ یہ حکومت پانچ سالوں میں کیا کارکردگی دکھاتی ہے۔ سابق حکومت نے پانچ سالوں کے دوران ستر قوانین پاس کئے جو ہماری بہت بڑی کامیابی ہے ۔


ان پانچ سالوں میں قانون ساز ادارے نے اپنا کام مکمل کیا ہم نے سٹینڈنگ کمیٹیوں کے ذریعے قوانین پاس کرائے موجودہ حکومت کے پانچ منٹ میں پاس کئے گئے قوانین ہی حکومت کو لے ڈوبیں گے ۔

ماس ٹرانزٹ ٹرین اورپٹ فیڈر کینال کا منصوبہ ختم کرکے حکومت نے اس صوبے سے دشمنی کی ہے وزیراعلیٰ صاحب پانچ سال تک وفاق میں وزیرمملکت کے عہدے پر فائز رہے ۔

اگر وہ اتنے خیر خواہ تھے تو اس وقت انہوں نے کیوں استعفیٰ نہیں د یا جہاں تک کوئٹہ میں صفائی کی بات ہے تو سابق حکومت نے ستر کروڑ روپے سے جو مشینری خریدی تھی اس کے ذریعے کوئٹہ شہر کی صفائی کی جارہی ہے اس کا کریڈٹ سابق حکومت کو جاتا ہے موجودہ حکومت کو نہیں۔

ثناء بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے معاملات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے حکومت کے ہر بہتر اقدام کی حمایت کرتے ہیں ہمارا کسی سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں گزشتہ پانچ سال وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت رہی ہے جس کا جام صاحب حصہ تھے اور بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) اور ان کے اتحادیوں کی حکومت رہی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی کے حوالے سے ہم نے کبھی حکومت کی مخالفت نہیں کی اگر مخالفت کی ہے تو گورننس کے حوالے سے حکومت سے اختلاف کیا ہے اقدامات اور گورننس دو علیحدہ چیزیں ہیں لوگوں کو اگر روزگار میسر آیا ہسپتالوں کی حالت بہتر ہوئی ہے ۔

قومی شاہراہوں پر حادثات میں کمی آئی ہے لوگو ں کو پینے کا پانی میسرآیا ہے تعلیم سے متعلق مسائل حل ہوئے ہیں تو ہمیں بتایا جائے بلوچستان ایک بہت تلخ مرحلے سے گزررہا ہے۔