بلوچستان کی موجودہ اسمبلی آج کل ثنا بلوچ کی دبنگ انٹریز کی وجہ سے خبروں میں ہی رہتی ہے۔ اسمبلی میں نمایاں کردار اُن ہی کا نظر آتا ہے۔ زیادہ تر اراکین اسمبلی عوامی مسائل پہ تیاری کیے بغیر ثنا بلوچ جیسے ممبران کی تقریر سننے کے لیے اسمبلی کا رخ کرتے ہیں جبکہ ثنا بلوچ اپنی زوردار تقریر اور دبنگ انٹری کی وجہ سے اسمبلی کی سست فلور کو ہلانے کا کام کرتے ہیں۔
صوبائی حکومت دل ہی دل میں ان کی غیر حاضری کے لیے دعائیں کرتی ہوگی مگر کیا کیا جائے ثنا بلوچ کوئی بھی کاروائی مِس کرنے کو تیار نہیں۔صوبائی وزیرِ داخلہ اور پی ڈی ایم اے سلیم کھوسہ نے صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی کے ہمراہ گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان میں جاری خشک سالی کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان میں اس وقت گیارہ اضلاع قحط سالی کا شکار ہیں قحط سالی سے متاثرہ افراد کی تعداد 346114 ہے۔
متاثرہ افراد تک خوراک کی رسائی کے لیے حکومت اقدامات اٹھارہی ہے جن میں متاثرہ چار اضلاع کو راشن اور دیگر سامان کی فراہمی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ جبکہ مزید امداد کے لیے صوبہ وفاق کی راہیں تھک رہی ہے۔
اب خدا جانے کھوسہ صاحب کے بیانات و رپورٹ میں کس قدر صداقت ہے کتنی مقدار میں امداد کی فراہمی عمل میں لائی جا چکی ہے یا حکومت مزید کونسے اقدامات اٹھا رہی ہے بلوچستان میں تصدیق کے عمل سے گزر کر حقائق کو سامنے لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جو بھی ہے جیسے بھی ہے یقین تو کرنا ہی پڑے گا۔ بات جب امداد پہ آتی ہے تو خدا جانے وفاقی حکومت کو کب رحم آجائے اور امداد روانہ کردے۔۔ فی الحال آثار بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔
پی ڈی ایم اے نے جو کہنا تھا وہ تو کہہ دیا۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ گزشتہ روز کی اسمبلی کاروائی سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ روز ایوان کے فلور پہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثنا بلوچ نے صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپوررٹ کو حقائق کے منافی قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت گیارہ اضلاع نہیں بلکہ پورا بلوچستان ہی خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے۔
لہذا پورے بلوچستان کو خشک سالی سے متاثرہ صوبہ قرار دے کر حکومت ہنگامی بنیادوں پہ امداد شروع کرے اور ڈیموں کی تعمیر کے لیے وفاق سے فنڈ کا مطالبہ کرے اگر ایسا نہیں کیا گیا تودمادم مست قلندر ہوگا۔ جس پر حکومتی رکن اسمبلی عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بسم اللہ کریں ہم مقابلے کے لیے تیار ہیں۔
اب خدا جانے کونسی کشتی لڑنے جا رہی ہے۔ بہرحال ثنا بلوچ کی دمادم مست قلندر نے ایک بار پھر سے اسمبلی فلور کو حرکت میں لانے پہ مجبور کیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گی یا ثنا بلوچ ایک بار پھر سے اپنی دبنگ انٹری سے دمادم مست قلندر کا نعرہ بلند کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اسمبلی میں جن اداروں کی کارکردگی سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں مہینوں گزر جانے کے باوجود ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا آیا وہ اپنے آپ کو جواب دہ نہیں سمجھتے یا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ یہ انتہائی اہم نکتے کی طرف اشارہ تھا۔ بلوچستان میں جاری خشک سالی کے کئی محرکات ہو سکتے ہیں۔
پانی کا زیر زمین چلا جانا۔۔ زرعی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے مشینری کا بے جا استعمال۔ جنگلات کی کٹائی وغیرہ وغیرہ۔ بلوچستان میں پچھلے زمانے میں زرعی زمینیں آباد کرنے کے لیے مشینری کااستعمال رواج نہیں پایا تھا زمیندار بارانی پانی سے زمینیں آباد کیا کرتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی چلی گئی زرعی زمینوں کو آباد کرنے کے لیے مشینری کا بے جا استعمال عمل میں لایا گیاجس سے پانی زیر زمین چلا گیا۔بلوچستان کے بیشتر اضلاع گیس کی سہولت سے محرومی کا شکار ہیں۔
گیس کی سہولت نہ ہونے سے مکین آگ جلانے کے لیے لکڑی کا استعمال کرتے ہیں۔ لکڑی استعمال کرنے لیے جنگلات کی کٹائی استعمال میں لائی جاتی ہے۔ درختوں کی کمی سے بارشیں رک جاتی ہیں۔ بارشیں نہ ہونے سے پانی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ پانی کے بحران سے خشک سالی ہوتی ہے۔جب خشک سالی آتی ہے تو بے شمار مصائب بھی اپنے ساتھ لاتی ہے زراعت کے ساتھ ساتھ لائیواسٹاک کا نظام تباہ ہوجاتا ہے۔
لوگ معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوجاتے ہیں۔نتیجہ نقل مکانی کی صورت میں سامنے آجاتی ہے۔ جبکہ صوبائی حکومت خشک سالی سے متعلق سوشل میڈیا پہ چلنے والی ان خبروں اور ویڈیوز کو بے بنیاد قرار دے کر کہتی ہے کہ لوگ خشک سالی سے نہیں موسم کے بدلاؤ سے نقل مکانی پہ مجبور ہورہے ہیں ہے نامضحکہ خیز بات ۔
بلوچستان میں خشک سالی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جبکہ ان سے نمٹنے کے لیے صوبے کے اندر ڈیزاسٹرمنیجمنٹ کے ساتھ ساتھ کئی ادارے موجود ہیں جن کا کام ہی یہی ہے کہ وہ قدرتی آفات اور مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی توانائیاں خرچ کریں۔مسائل کی نشاندہی کرکے عوام کو باخبر رکھیں۔
لیکن یہ ادارے غیرفعال ہوکر مسائل سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور کردار ادا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ماحولیات، لائیواسٹاک، ایری گیشن، زراعت، جنگلات، خوراک، پی ایچ ای، واسا جیسے ادارے جن کا ڈھانچہ تو موجود ہے لیکن کارکردگی صفر ہے۔
اب یہ ادارے غیر فعال کیوں ہیں۔ بقول اسمبلی اراکین ادارے کے سربراہاں جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔بلوچستان حکومت خشک سالی سے نمٹنے کے لیے مزید کیا اقدامات اٹھا سکتی ہے اس کا اندازہ حکومتِ بلوچستان کی مالی حالت دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلی بار جب صوبائی اسمبلی کی نشست جمے گی تو ثنا بلوچ کی دمادم مست قلندر سے اسمبلی فلود کتنی مست ہوگی ہم سب کو اس مست ہونے کا انتظار ۔
Dilawar Khan
Sana baloch is absolutely right,he is the only member of assembly which highlights the basic problems of Balochistan.The whole province is a victim of drought and the government representative declare only few district.What a shame for them and thanks to BNP that they put some serious issues in front of government ,afterward no,government personal is able to talk in Balochistan assembly leave the national assembly.