گوادر : ایسٹ بے ایکسپر یس وے کے منصوبے سے متاثر ہونے والے گوادرکے مقامی ماہی گیروں کے مطالبات کے حق میں بی این پی ( عوامی ) کے زیراہتمام احتجاجی ریلی نکالی گئی ۔
ریلی کا آغاز بلد یہ گوادر آ فس کے سامنے ہوا جومارچ کر تے ہوئے شہدائے جیونی چوک پر اختتام پز یر ہوئی۔ ریلی کی قیادت بی این پی ( عوامی ) کے مر کزی انسانی حقوق کے سیکر یڑی ایڈ وکیٹ سعید فیض کر رہے تھے جبکہ احتجاجی ریلی میں بی این پی ( مینگل ) ، نیشنل پارٹی ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، پا کستان تحر یک انصاف، بی ایس او ، وکلاء اور سماجی تنظیموں کے مقامی رہنماؤں و کارکنوں سمیت ماہی گیر اتحاد کے رہنماؤشر یک تھے ۔ ریلی کے شر کاء نے ماہی گیروں کے حق میں ماہی گیروں کے احتجاج کے حق میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔
ریلی کے شرکاء سے خطاب کر تے ہوئے بی این پی ( عوامی ) کے مرکزی رہنماء ایڈو کیٹ سعید فیض، جماعت اسلامی کے صوبائی جنرل سیکر یڑی مولانا ہدایت الرحمن، نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر فیض نگوری، پاکستان تحر یک انصاف کے ضلعی صدر مولا بخش مجاہد، بی این پی ( مینگل ) کے ضلعی رہنماء حسین واڈیلہ، جمعیت علمائے اسلام ( ف) کے رہنماء مو لابخش مجاہد،بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے رکن اسماعیل عمر، گوادر بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ محمد صد یق زعمرانی، انسانی حقوق کمیشن کے رہنماء شے علی بلوچ ، بی این پی ( عوامی ) کے تحصیل صدر حسن ند یم ، پی پی پی کے رہنماء نبی بخش بابر ، ماہی گیراتحاد کے رہنماؤں خدا دا د واجو اور ناخدااکبر علی رئیس نے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ ایسٹ بے ایکسپر یس وے کے منصوبے کی بنیاد ماہی گیروں کو روزگار سے بے دخل کر کے رکھی جارہی ہے جس سے نہ صرف ماہی گیر وں کو اپنے روزگار چھن جانے کا فکر دامن گیر ہے بلکہ من الحیث مقامی آبادی بھی مضطر ب دکھائی رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تعجب ہے کہ ماہی گیر گزشتہ کئی ماہ سے اپنے روزگار کے تحفظ کے لےئے چیخ رہے ہیں لیکن منصوبہ ساز اس حوالے سے نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ایسٹ بے ایکسپر یس وے کے منصوبے پر کام کی رفتار بھی تیز تر کی گئی ہے نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ ماہی گیروں کے لےئے سمندر میں آمدو رفت مسئلہ بن گیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گوادر شہر کی تاریخ ، ثقافت ، معاشرتی رعنائیاں اور بنیاد ماہی گیروں نے کئی صد یاں پہلے رکھ دی تھی ماہی گیر وں نے ہی یہ شہر آباد کیا ہے سمندر اور ماہی گیروں کا رشتہ اب اٹوٹ بندن کی طرح ہوگیا ہے جس کا سینہ چیر کر ماہی گیر نہ صرف اپنے گھروں کے چولہے جلاتے ہیں بلکہ شہر کی معشیت سازی بھی انکی مر عونِ منت ہے لیکن ترقی کی عمارت ماہی گیروں کے وجود پر رکھنے کی پا لیسی اختیار کی گئی ہے جو افسوس ناک ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت کوئی بھی منصوبہ شروع کرنے سے قبل مقامی آبادی کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے یا ان کے لےئے متبادل منصوبہ بندی کی جاتی ہے لیکن یہاں یہ اصول اپنائے نہیں گئے ہیں ۔
ایسٹ بے ایکسپر یس وے کا منصوبہ مقامی ماہی گیروں کی منشاء کے بغیر ڈیزائن کر کے تعمیرکیاجارہا ہے جس میں ماہی گیروں کی بنی بنائی گئی معشیت دفن ہونے کے کگا ر پر ہے یہ سمندر ماہی گیروں کی روزی روٹی کا ذریعہ نہیں بلکہ گوادر کی 80فیصد آبادی ماہی گیری کی صنعت سے استفادہ حاصل کر رہا ہے اگر یہ شعبہ ختم ہوگیا تو شہر کی معشیت کی بنیاد یں ہل جائینگی ۔
انہوں نے کہا کہ گوادر کو سی پیک کے ماتھے کا جھومر گر دانا گیا ہے لیکن جھومر سے پھوٹنے والے شعاؤں سے مقامی آبادی کے پسماندگی ،محرومی ، افلاس اور بھوک کی تصو یریں نمودار ہوتے دکھائی دے رہی ہیں ان تصو یروں کو بدلنا ہوگا بصورت یہ سمجھا جائے گا کہ تعمیر اور ترقی کی آڈ میں مقامی لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا بلکہ یہ سر مایہ دارانہ نظام کودوام دینے کی کوشش تصور کی جائے گی ۔
انہوں نے کہا کہ ماہی گیر چاند اور تارے نہیں مانگ رہے بلکہ اپنے روزگار کا تحفظ اور سمندر میں نقل و حمل چاہتے ہیں جو حکومت اور منصوبہ سازوں کے لےئے کوئی بڑی بات نہیں ما ہی گیروں کو ان کے مطالبات کی روشنی میں مشرقی ساحل پر تین گزر گائیں اور گودی بناکر دی جائے جو نا قا بل عمل منصوبہ نہیں بس حکمرانوں کو اپنی نیتیں ٹھیک کرنا ہوگی ۔
انہوں نے کہاکہ گوادر کے ماہی گیر اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھیں بلکہ یہاں کی تمام سیاسی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں ان کے شانہ بشانہ ہیں ماہی گیر اپنے اندر اتحاد اور اتفاق پید ا کریں ۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک اور تر قیاتی منصوبوں کا کوئی متعر ض نہیں مگر بنیادی حقوق مانگنا ہمار ا آئینی اور بنیادی حق ہے کوئی خوف ہمیں اپنے حقوق کی جنگ سے دستبر دار نہیں کر اسکتا جب تک جان میں جان ہے ماہی گیروں کے روزگار کے تحفظ کے لےئے ہماری آواز گونجتی رہے گی ۔ریلی کے نظامت کے فرائض بی این پی ( عوامی ) کے رہنماء ایڈوکیٹ راشدعلی نے ادا کےئے۔
گوادر ، ایسٹ بے ایکسپریس وے منصوبے سے متاثر ماہیگیروں کے حق میں احتجاجی ریلی
وقتِ اشاعت : December 22 – 2018