افغان جنگ نے ہمارے خطے کو شدید متاثر کرکے رکھ دیا ہے خاص کر پاکستان پر سیاسی،سماجی اور معاشی حوالے سے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کااظہار بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے برملا کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جب افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کی گئی تو اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہاکہ اہم قومی فیصلوں پر سب کو اعتماد میں لینا ضروری ہے کیونکہ ہر صوبے کے اپنے زمینی حقائق ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغان مہاجرین کی آمد کے بعد بلوچستان پر انتہائی منفی اثرات پڑے، یہاں کی سینکڑوں سالہ پرانی روایات شدید متاثر ہوکر رہ گئے ، شدت پسندی، دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، کلاشنکوف کلچر، منشیات یہ سب مہاجرین کی وجہ سے بلوچستان کا حصہ بنے، حد تو یہ ہے کہ بلوچستان کے سیاسی معاملات پر بھی افغان مہاجرین اثر انداز ہونا شروع ہوگئے اور انتخابات میں ان کے نہ صرف ووٹ کاسٹ ہوئے بلکہ برائے راست انتخابات میں بھی حصہ لینے لگے۔
انہی حالات کے پیش نظر یہ مطالبہ ہر طرف سے ہورہا ہے کہ افغان مہاجرین جنہوں دستاویزات بنائے ہیں ان کو منسوخ کیاجائے اور انہیں باعزت طریقے سے ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔موجودہ سیاسی وعسکری قیادت نے یہ واضح کردیا ہے کہ پاکستان صرف امن کے حوالے سے معاونت فراہم کرے گا مگر کسی اور کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا ۔
دنیا اس بات کو تسلیم کرے کہ جہاں پاکستان نے اس جنگ میں اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے وہیں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ امریکہ اور عالمی برادری جس طرح اپنے ممالک میں امن اور خوشحالی چاہتی ہے اسی طرح پاکستان بھی یہی خواہش رکھتا ہے مگر اس کیلئے عالمی برادری کا بھرپور تعاون بھی درکار ہے۔ گزشتہ روزا مریکہ نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں منصوبہ بندی کے لیے زبانی احکامات دئیے گئے۔
امریکی حکام کے مطابق فوجیوں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے اوقات کار پر غور کیا جا رہا ہے جو ہفتوں یا مہینوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ افغانستان میں باقی بچ جانے والے امریکی فوجی کس طرح سے مختلف مشنز کو جاری رکھ پائیں گے جس میں افغان فوج کی تربیت، زمینی کارروائی میں معاونت اور طالبان سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شامل ہیں۔
امریکی صدر افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کے زیادہ حامی نہیں رہے تاہم اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے غیر متوقع فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان میں تین ہزار اضافی فوجی بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ نجی طور پر افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو ناپسند کرتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک اتحادی سے کہا تھا کہ’ ہم وہاں اتنے برسوں سے ہیں، ہم وہاں کر کیا رہے ہیں۔
اب امریکی فوج میں کمی کے فیصلے سے لگتا ہے کہ’ صدر ٹرمپ کے صبر کا پیمانہ لبریز‘ ہو گیا ہے۔2001 میں نائن الیون کے شدت پسند حملوں کے بعد امریکہ نے اپنی فوج افغانستان میں اتاری تھی کہ شدت پسند وں کے خلاف کارروائیاں کرکے افغانستان کو پرامن ملک بنایا جا ئے تاکہ مستقبل میں یہاں سے مغرب کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی نہ کی جا سکے۔17
برس تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 24 سو امریکی فوجی مارے جانے کے باوجود امریکہ کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور حالیہ برسوں میں افغان طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں قابل ذکر تک اضافہ ہوا ہے اور کئی محاذوں پر افغان فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کی اطلاعات پر افغان حکومت کا کہنا ہے کہ انھیں اس فیصلے پر تشویش نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی یہی رائے پائی جاتی ہے کہ افغان قیادت بااختیار ہوکر فیصلے کرے تاکہ مذاکرات میں کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہوسکیں۔ اب جتنی جلد ہوسکے افغان مسئلہ کو پُرامن طریقے سے حل کرتے ہوئے مہاجرین کی واپسی کافیصلہ بھی کیاجائے خاص کر بلوچستان سے ان کا انخلاء ضروری ہے تاکہ بلوچستان میں امن اور خوشحالی کی رائے کھل سکیں ۔ افغان امن مذاکرات کی کامیابی سے سب سے زیادہ خوشی بلوچستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کو ہوگی جو دہائیوں سے متاثر ہیں۔
افغان امن مذاکرات

وقتِ اشاعت : December 23 – 2018