|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2018

’’سوال ہی جواب ہیں،جو سوال کرتا ہے، وہ جواب سے گریز نہیں کر سکتا۔‘‘ تم جانتے ہو ہمارے اندر موجود یقین کی قوت کس طرح ہمارے فیصلوں،اعمال،قسمت اور ہماری زندگیوں کی سمت پر اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ سب اثرات سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔سوچ سے مراد ہے ہمارے ذہن کا ساری زندگی کے دوران معانی کی قدر پیمائی کرنے اور معانی تخلیق کرنے کا انداز۔چنانچہ ہم روزانہ کس طرح اپنی حقیقت کو تخلیق کرتے ہیں اور اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح سوچتے ہیں؟
ہمارے سوال ہمارے خیالات کا تعین کرتے ہیں اور یہی خیالات ہمارے یقین کو بناتے ہیں اور اس سے ہم اپنی زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔ کامیاب لوگوں اور ناکام لوگوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ کامیاب لوگ بہتر سوال پوچھتے ہیں اور نتیجتاً وہ بہتر جواب پاتے ہیں۔ انہیں وہ جواب ملتے ہیں جو انہیں یہ جاننے کی قوت دیتے ہیں کہ کس صورت حال میں اپنی خواہش کے مطابق نتائج کو کس طرح پیدا کیا جاسکتا ہے۔معیاری سوال ایک معیاری زندگی کو تخلیق کرتے ہیں۔سوال ایسا اثر ڈالتے ہیں جو ہمارے تخیل و تصور سے بھی ماورا ہوتا ہے۔ ’’ساری انسانی ترقی نئے سوال کرنے کا نتیجہ ہے‘‘۔
’’خوبصورت جواب ہمیشہ زیادہ خوبصورت سوال کرتا ہے‘‘۔
(ای۔ای۔کمنگز)
لوگوں کے درمیان جو فرق ہوتا ہے وہ ان کے مستقل پوچھے جانے والے سوالوں کا فرق ہوتا ہے۔بعض لوگ ہمہ وقت ڈپریس رہتے ہیں۔سوال یہ کہ اس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟ وہ ہمیشہ ایسے سوال کرتے ہیں جو کمزور کر دینے والے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر:
’’ جب معاملات نے سدھرنا ہی نہیں تو کوشش کرنے کا کیا فائدہ‘‘۔
’’ میرے خدایا میں ہی کیوں؟‘‘۔
’’یاد رکھو تم جو سوچو گے۔۔۔وہی تمہیں ملے گا۔اگر تم خوفناک سوال کرو گے تو تمہیں خوفناک جواب ملے گا‘‘۔
سوچ تمہارے مرکز توجہ کا تعین کرتے ہیں۔
تمہارے طرز فکر کا۔
تمہارے طرز احساس کا
اور۔۔۔ تمہارے طرز عمل کا تعین کرتے ہیں۔
سوال ہی غلامی سے آزادی کی وجہ بنتے ہیں، سوال ہی ناکامی سے کامیابی کی طرف لے کر جاتے ہیں اور سوال ہی ہماری قسمت کا تعین کرتے ہیں۔اعلی زندگی اعلیٰ قدر پیمائی سے جنم لیتی ہے اور ہم میں سے ہر شخص زندگی کی اس سطح پر قدر پیمائی کرنے کی اہلیت کا حامل ہے جو غیر معمولی نتائج کو جنم دیتی ہے۔
جب تم لفظ جینیس سننے ہو تو سب سے پہلے تمہارے ذہن میں کس کا خیال آتا ہے، البرٹ آئن اسٹائن ، جو کہ ہائی اسکول میں فیل ہو گیا تھا، کس طرح عظیم سائنس دان بنا؟ بلاشبہہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اعلیٰ ترین سوال پوچھے تھے۔
’’اہم بات یہ ہے کہ سوال کرنا ترک نہیں کیا جائے۔تجسس اپنے ہونے کا جواز رکھتا ہے‘‘۔
(البرٹ آئن اسٹائن )
آئن اسٹائن نے جو امتیاز قائم کیے، وہ سوالوں کے سلسلے کا نتیجہ تھے۔کیا وہ سادے سے سوال تھے ؟ ہاں وہ سادے سے سوال تھے۔کیا وہ سوال زوردار تھے ؟ بالکل، وہ سوال زوردار تھے۔تم ویسے ہی سادہ لیکن زور دار سوال پوچھ کر کوئی سی طاقت حاصل کر سکتے ہو ؟
بلاشبہ سوال ایک ایسا جادوئی آلہ ہیں جو ہمارے ذہنوں کے اندر نہاں ’’جن‘‘ ہیں جو ہماری خواہشات پوری کرنے کا موقع دیتے ہیں۔ سوال ہماری جناتی صلاحیتوں کے لیے بیداری کا آوازہ ہوتے ہیں۔
تاہم سوال خواہشات کے حصول میں صرف تبھی معاون و مددگار ہوتے ہیں جب ہم انہیں خوب سوچ و بچار اور غور و غوض کے بعد ایک خاص صورت والی درخواست میں ڈھال لیں۔ایک اصلی معیاری زندگی معیاری سوالوں سے جنم لیتی ہے۔تم اپنے ذہن سے جو کچھ مانگتے ہو یہ کسی ’’جن‘‘ کی طرح وہی کچھ تم کو فراہم کرتا ہے۔پس کچھ بھی مانگتے وقت محتاط رہو۔تم جو کچھ چاہتے ہو وہی کچھ تمہیں ملتا ہے
جنہیں تم عادتاً پوچھتے ہو۔یاد رکھو تم جن سوالوں کو مستقلاً پوچھتے ہو، ان کا پٹیرن یا تو اذیت و الم کو جہنم دیتا ہے یا مسرت و راحت کو۔اپنے آپ سے ایسے سوال پوچھو جو تمہارا حوصلہ بڑھائیں اور تمہیں اعلیٰ کارکردگی کے راستے پر گامزن کر دیں۔
سوال فوری طور پر ہماری توجہ کے مرکز کو اور اس کے نتیجے میں ہمارے محسوسات کو تبدیل کر دیتے ہیں۔اگر ابتداء میں تمہارا ذہن یہ کہے کہ ’’میں کچھ بھی تو نہیں کرسکتا ہوں ،تب بھی تمہیں توقع کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔یوں آخرکار تم ان جوابوں کو پالو گے جن کی آپ کو ضرورت ہے اور جنہیں پانا تمہارا حق ہے،جب تم ان پر توجہ مرکوز کروگے تو تمہاری جذباتی کیفیت فی الفور بدل جائے گی۔
سوال صرف تمہیں تحریک نہیں دیتے بلکہ وہ کسی جذبے کو محسوس کرنے کی حقیقی وجوہات فراہم کرتے ہیں۔بحران کے لمحوں میں قوت بخش سوال کرنا ایک ’’ہنر‘‘ہے، جس کی بدولت ہم اپنی زندگی کے مشکل ترین مرحلوں میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔آگر آپ کو کوئی ایسا شخص ملے جو انتہائی زیادہ خوش ہو تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے وہ شخص مستقلاً ایسی چیزوں، ایسی باتوں پر توجہ مرکوز کیے رکھتا ہے جو اسے خوشی عطا کرتی ہیں۔
جوابوں کا انحصار ان سوالوں پر ہوتا ہے، جنہیں پوچھنے پر ہم راضی ہوتے ہیں۔
پس اگر تم غصے میں ہو تو تم اپنے آپ سے سب سے اچھی بات جو پوچھ سکتے ہو، وہ یہ ہے کہ میں اس مسئلے سے کیا سبق سیکھ سکتا ہوں تاکہ یہ دوبارہ کبھی درپیش نہ ہو؟ یہ ایک معیاری سوال کی مثال ہے کیونکہ یہ تمہیں مستقبل میں اس اذیت سے بچا سکتے ہیں۔جب تک تم اس سوال کو نہیں پوچھ رہے ہو، تم اس امکان کو رد کر رہے ہو کہ یہ مسئلہ ایک موقع ہے۔
سوال ہمارے یقینوں پر اثرانداز ہونے کی قوت رکھتے ہیں یعنی وہ اس امر پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ ہم کس کام کو ممکن سمجھتے ہیں اور کس کام کو نا ممکن۔کاروبار کی دنیا میں بالخصوص سوال نئی دنیاؤں کے دروازے کھولتے ہیں اور ہمیں ان وسائل تک رسائی دیتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ موجود بھی ہیں۔
اگر تم اپنے سوالوں پر شعوری کنٹرول پانا سیکھ لو تو تم اپنی تقدیر خود بنا سکتے ہو، دنیا کی کوئی اور چیز تماری تقدیر پر اثرانداز نہیں ہو سکتی۔
جو سوال نہیں کرسکتا، وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ (پرانی ضرب المثل )
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سوال کا پہلا جواب ایسا ہوتا ہے جس پر تم بھروسہ کرسکتے ہو اور جس کے مطابق عملی قدم اٹھا سکتے ہو۔ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب تمہیں آگے بڑھنے کیلئے سوال پوچھنا چھوڑنا ہوگا، اگر تم سوال پوچھتے رہے تو غیر یقینی کا شکار ہو جاؤ گے اور تم کو اب عمل کی ضرورت ہے اور یہ طے کر لو تمہارے لیے کونسی چیز زیادہ اہم ہے کم از کم اس لمحے اور پھر اپنی شخصی قوت کو استعمال کرکے اپنی زندگی کے معیار میں تبدیلی لانی ہے۔
(معروف موٹیویشنل اسپیکرانتھونی رابنز کی کتاب Within Giant The Awaken۔’’اپنے اندر سوئے’’جن‘‘کو جگائیے‘‘سے مقتبس)