|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2018

کوئٹہ: محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کے صوبائی کابینہ کے فیصلے کیخلاف بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز ایکشن کمیٹی کا بلوچستان اسمبلی کے باہر دھرنا ،حکومت اور اپوزیشن اراکین نے معاملہ کے حل کیلئے ایوان میں اپنے تجاویزپیش کئے ،مشیر تعلیم حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کردیا گیا ۔

ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی نے ایوان کی توجہ بلوچستان اسمبلی کے باہر اساتذہ کی احتجاج پر مبذول کراتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر سے لازمی سروس ایکٹ کیخلاف سراپا احتجاج اساتذہ سے مذاکرات کیلئے مشیر تعلیم سمیت حکومت اور اپوزشن اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بھیجنے کی استدعا کی ۔

نواب اسلم رئیسانی کا پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بلوچستان میں حکومت تعلیمی ایمرجنسی کی بات کررہی ہے صوبائی کابینہ سے منظور ہونے والے تعلیمی ایکٹ 2018ء کا ڈرافٹ ابھی تک ایوان میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا گیا ہے ۔ محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے سے متعلق ایکٹ پر اپوزیشن اساتذہ اور بلوچستان کے عوام کے مفاد میں اپنا فیصلہ کرے گی ۔

قائد حزب اختلاف ملک سکنڈر خان ایڈووکیٹ، اراکین اسمبلی نصراللہ زہرے، ملک نصیر شاہوانی، اصغر اچکزئی، صوبائی وزیر زراعت زمرک اچکزئی نے نواب اسلم رئیسانی کی بلوچستان اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج اساتذہ سے مذاکرات کیلئے اراکین اسمبلی پرمشتمل کمیٹی قائم کرنے کی تجویز کی حمایت کی ۔

اپوزیشن کے رکن نصراللہ زیرے نے کہا کہ کابینہ سے منظور ہونے والا ایکٹ تعلیم دشمنی پر مبنی ہے حکومت کے اس اقدام سے تعلیمی پسماندگی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اساتذہ اور بی ڈی اے ملازمین سینکڑوں کی تعداد میں سراپا احتجاج ہیں ۔

قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز کو فعال کرنے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے جس پر عملدرکرنے سے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں ڈنڈا اٹھا کر زبردستی لوگوں پر فیصلے مسلط کرنے اور اساتذہ کے ہاتھ پاؤں باندھنے سے اداروں میں بہتری ممکن نہیں ہے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے ڈپٹی سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ اپوزیشن اور حکومتی اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔ 

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ گزشتہ اجلاس کے دوران احتجاج کرنے والے اساتذہ سے ہم نے بات کی ہے اساتذہ تنظیمیں بیٹھ کر مسئلے کا حل چاہتی ہیں اور انہوں نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ محکمہ تعلیم میں ہونے والی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے مگر صوبائی کابینہ سے منظور ہونے والے ایکٹ کی چند شقوں پر انہیں اعتراض ہے جنہیں حل کرنا ہوگا ۔

صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی ایسے کسی فیصلے کی حمایت نہیں کرے گی جس سے تعلیمی نظام اور اساتذہ کو نقصان پہنچے اب تک ایکٹ بلوچستان اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش نہیں کیا گیا اساتذہ سے بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے ۔

صوبائی مشیر تعلیم محمدخان لہڑی کا اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سابق دورحکومت میں اساتذہ کے مسائل حل کیوں نہیں ہوئے بی ڈی اے ملازمین کو سابق حکومت میں نکالا گیا تھا بلوچستا ن میں اساتذہ ڈیوٹی نہیں کرتے میں خود متعدد اضلاع کا دورہ کرچکا ہوں جہاں بارہ اساتذہ تعینات ہیں وہاں چھ اساتذہ غیر حاضر اساتذہ کی نصف تنخواہ لیکر ان کی جگہ پر ڈیوٹی دے رہے ہیں ۔

محکمہ تعلیم کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ سیاسی مداخلت ہے ۔اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج اساتذہ نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا ہے اساتذہ نے ایکٹ کی کابینہ سے منظوری کے بعد احتجاج کا راستہ اختیار کیاہے ہماری کوشش ہے کہ محکمہ تعلیم میں اصلاحات لا کر تعلیمی نظام کو بہتر بنائیں ۔صوبائی مشیر مٹھا خان کاکڑ نے کہا کہ محکمہ تعلیم میں بہتری پر سیاست کی بجائے صوبائی حکومت کے اقدامات کی حمایت کرنی چاہئے ۔ 

اگر ماضی کی طرح محکمہ تعلیم میں سیاسی مداخلت کی جائے گی تو یقناً تعلیمی شعبہ مزید زبوں حالی کی جانب جائے گا ۔ رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ نے کہا کہ ہم اساتذہ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آنے والی نسلوں کو بہتر تعلیم و تربیت دیں گے ۔

آج سراپا احتجاج اساتذہ کا رویہ دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اساتذہ احتجاج کے لئے نہیں غنڈہ گردی کے لئے بلوچستان اسمبلی کے باہرجمع ہوئے ہیں اساتذہ اسمبلی ممبران کو مردہ اور ایوان کو قبرستان کہہ کر پکار رہے ہیں میری ڈپٹی سپیکر سے استدعا ہے کہ اساتذہ سے مذاکرات کے لئے جانے والی کمیٹی کو پابند کیا جائے کہ وہ اساتذہ سے پوچھیں کہ وہ اسمبلی ممبران اور اسمبلی کو کن الفاظ سے پکار رہے ہیں۔

جس پر نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ شیخ رشید کی روح کو ایوان میں چھوڑ کر بلوچستان اسمبلی کے باہر سراپا احتجاج اساتذہ سے مذکرات کئے جائیں ۔ جس پر ڈپٹی ا سپیکر کی ہدایت پر اے این پی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی ،صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی، قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ اور ملک نصیر شاہوانی پر مشتمل کمیٹی نے اساتذہ سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اگلے اجلاس میں ایکشن کمیٹی کے نمائندے کیساتھ ملکر مسئلہ کا حل نکالا جائیگا ۔

قبل ازیں بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی میں شامل تنظیموں اورآل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کے سبزہ زار پر منعقدہ احتجاجی جلسہ عام اور بعدازاں صوبائی اسمبلی کے باہر دیئے گئے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کے صوبائی کابینہ کے فیصلے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے حکومت اوربیورو کریسی بنیادی انسانی و آئینی حقوق سے متصادم ایکٹ واپس لینے کا اعلان کرے۔ 

آل پاکستان کلرک ایوسی ایشن کی جانب سے سائن کالج سے میٹروپولیٹن تک قائم مقام صوبائی صدر یونس کاکڑ اور ضلع کوئٹہ کے صدررحمت اللہ زہری کی قیادت میں ریلی نکالی گئی آل پاکستان کلرک ایوسی ایشن کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر آفس میں تعینات عملہ کی بجائے آئی ٹی کے ملازمین سے ڈی سی آفس کا کام لیا جارہا ہے جوقابل مذمت ہے ۔

بعداز ں ریلی کے شرکاء نے بلوچستان اسمبلی کے باہر محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کے صوبائی کابینہ کے فیصلے کیخلاف اساتذہ کے احتجاجی دھر نے میں شرکت کی ۔ دریں اثناء بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان ریونیواتھارٹی سیلز ٹیکس خدمات کا ترمیمی مسودہ قانون منظور اپوزیشن جماعتوں کا ایوان سے واک آؤٹ گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ ہونے والی تحریک التواء محرک کی عدم موجودگی پر نمٹا دی گئی ۔

وفقہ سوالات کے دوران صوبائی وزیر داخلہ اور مشیر لائیواسٹاک اپوزیشن کے ضمنی سوالات کے جوابات نہ دے سکے آئندہ اجلاس میں جوابات دینے کی یقین دہانی ۔مقابلے کے امتحان میں سوال کے پرنٹنگ کی غلطی پرڈپٹی اسپیکر نے چیئر مین پبلک سروس کمیشن کوآج اپنے چیمبر میں طلب کرلیا ۔ 

واجبات کی عدم ادائیگی پر ٹیوب ویلز کے کنکشنز منقطع کرنے پی آئی اے کے کرایوں میں اضافہ پر اراکین اسمبلی نے ایوان کی توجہ مبذول کرائی ۔ گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی کا مسودہ قانون وزیر خزانہ محمد عارف محمد حسنی نے پیش کیا ۔

اس موقع پر اپوزیشن کے رکن سید فضل آغا کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹیاں نہ ہونے پر بل سے متعلق خصوصی کمیٹی بنائی جاتے تاکہ حکومت اور اپوزیشن ارکان اس پر بحث کرکے بہتر قانون سازی کرسکیں ۔ 

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے سید فضل آغا کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ اب تک ایوان کی کمیٹیاں نہیں بنی ہیں حکومت کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے ۔جس پر بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کا موقف درست نہیں یہ مسودہ قانون اب ایوان کی پراپرٹی ہے اس پر دونوں جانب سے رائے آنا ضروری ہے ۔

بی اے پی کے دنیش کمار نے کہا کہ اس ضمن میں قانون سازی نہ ہونے سے صوبے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا اس مسودہ قانون کو فوری طو رپر منظؤر کیا جائے۔ صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ ہر مسئلے پر کمیٹیاں نہیں بنائی جاسکتیں ایوان میں بل کابینہ کی منظوری کے بعد لائے جاتے ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون سازی کرے ۔

صوبائی وزیر میر عارف محمد حسنی نے کہا کہ قانون سازی میں تاخیر سے صوبے کو مالی طو رپر نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے مسودہ قانون کو منظور کیا جائے ۔

رکن بلوچستان اسمبلی سید احسان شاہ نے کہا کہ چونکہ اب تک اسمبلی کی کمیٹیان نہیں بنی ہیں ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان جلد از جلد کمیٹیاں بنائیں اگر اس وقت کمیٹیاں نہیں ہیں تو پھر مسودہ قانون کو منظور کیا جائے ۔

جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر پہلے خود اس مسئلے پر سٹینڈنگ کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کراچکے ہیں اور اب اس کے برعکس کیا جارہا ہے جو درست اقدام نہیں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے اسمبلی کے قواعد پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں ڈپٹی سپیکرکمیٹی قائم کرسکتے ہیں تاہم یقین دہانی کے بعد ڈپٹی سپیکر کی جانب سے اب مسودہ قانون منظوری کے لئے پیش کرنے پر اپوزیشن ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کرتی ہے ۔

اپوزیشن اراکین کے ایوان سے واک آؤٹ کے بعدبلوچستان اسمبلی میں بلوچستان ریونیو اتھارٹی اور بلوچستان میں سیلز ٹیکس خدمات کا ترمیمی مسودہ قانون متفقہ طو رپر منظور کرلیا گیا اس موقع پر سپیکر نے گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ ہونے والی تحریک التواء محرک کی عدم موجودگی پر نمٹانے کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں صوبائی وزیر ضیاء لانگو نے کہا کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی میں جو بات کرتے ہیں انہیں اس کا ثبوت بھی دینا چاہئے پچھلے دنوں ایک رکن کی جانب سے بعض افسران کی جانب سے بھتہ لینے کا الزام لگایا گیا جس سے محکمے کی بدنامی ہوئی ایسی بات کرنے والے اس کا ثبوت بھی دیں بی اے پی کی بشریٰ رند نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ کوئٹہ سے مختلف ایئر لائنز کے کرائے انتہائی زیادہ ہیں جنہیں اعتدال پر لانے کی ضرورت ہے ۔ 

بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران بلوچستا ن نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگواور نصراللہ زیرے نے مشیر لائیواسٹاک مٹھا خان کاکڑ اور صوبائی وزیر داخلہ سلیم کھوسہ سے ضمنی سوالات کئے جس پر دونوں کی جانب سے انکے محکموں سے متعلق سوالات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں اپوزیشن اراکین کو جوابات دینے کی یقین دہانی کرائی ۔

بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو سے مشیر لائیواسٹاک مٹھاخان کاکڑ سے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہا کہ مشیر لائیوسٹاک کی جانب سے پیش کئے گئے اعدادوشمار میں کل تیرہ ڈیری فارمز کا ذکر ہے جبکہ اگلے ہی سوال کے جواب میں ڈیری فارمز کی تعداد 17 بتائی گئی ہے ۔

لہذا ایوان کو بتایا جائے کہ ان چار ڈیرہ فارمز کیلئے چارہ کہاں سے خریدار جارہا ہے جس پر مشیر لائیواسٹاک نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس متعلق محکمے سے جواب طلب کرکے آئندہ اجلاس میں ایوان کو آگاہ کریں گے۔پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے بھی محکمہ داخلہ سے متعلق سوالات کے جوابات پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر داخلہ آئندہ اجلاس میں تیاری کرتے ہوئے ہمارے سوالوں کے تسلی بخش جواب دیں ۔

وقفہ سوالات میں ثناء بلوچ کے سوالات آئندہ اجلاس تک موخر کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر نے وقفہ سوالات نمٹادینے کی رولنگ دی ۔اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ کیسکو کو واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث شہر میں بعض ٹیوب ویل کے بجلی کے کنکشنز منقطع کردیئے گئے ہیں ۔

گزشتہ حکومت کے دورا ن شہر کے مختلف علاقوں میں قائم کئے گئے150واٹر سپلائی سکیمات کا چارج محکمہ واسا نہیں لے رہی واسا پر محکمہ کیسکو کے پندرہ کروڑ روپے واجب الادا ہیں لہٰذا صوبائی وزیر خزانہ محکمے کو فنڈز کی فراہمی یقینی بنائیں۔ 

بی این پی کے اخترحسین لانگو نے بھی نصراللہ زیرئے کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کے بعض علاقوں میں قائم ٹیوب ویل کی اکثریت غیر فعال ہیں اور مشینری خراب ہوچکی ہے لہٰذا محکمہ اس ضمن میں اقدامات اٹھائے جس پر صوبائی وزیر خزانہ عارف محمد حسنی نے کہا کہ محکمہ خزانہ نے فنڈز ریلیز کردیئے ہیں جو ایک دو دن میں متعلقہ محکمے کو موصول ہوجائیں گے۔

صوبائی وزیر پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ واسا ایک اتھارٹی ہے ہمیں گرانٹ لینے کے لئے حکومت سے رجوع کرنا پڑتا ہے سپیکر کیسکو چیف کو ہدایات جاری کریں کہ جب تک محکمے کو گرانٹ نہیں ملتی وہ بجلی کے کنکشز منقطع نہ کرے صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن اراکین نصراللہ زیرئے اور اختر حسین لانگو کل میرے آفس آئیں وہاں کیسکو چیف کو طلب کرکے مسئلہ حل کردیا جائے گا۔

سید احسان شاہ نے پبلک سروس کمیشن کے ہونے والے مقابلوں کے امتحانات میں پرنٹنگ کی غلطی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ پرچے میں bookکی جگہ lookلکھا گیا تھا لہٰذا خدشہ ہے کہ امتحان میں طلبہ کو فیل نہ کردیا جائے جس پر ڈپٹی سپیکرنے رولنگ دیتے ہوئے چیئر مین پبلک سروس کمیشن کو 26دسمبر کو دن بارہ بجے اپنے چیمبر میں طلب کرلیا ۔بعدازاں اجلاس 27دسمبر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیاگیا ۔