|

وقتِ اشاعت :   December 27 – 2018

ہر گزرتے دن کے ساتھ پاک چاہنہ کوریڈور سے جڑے کچھ اچھی کچھ بری خبریں سننے کو ملتی ہیں لیکن ہم نے کبھی اس سے جڑے دیگر عوامل کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ ہمیں صرف سی پیک سے جڑے اچھی خبروں کی دھند میں محصور کردیا گیا تھا لیکن چوں چوں وقت گزرتاگیا لوگوں نے اس میں دلچسپی لینا شروع کی ۔

چونکہ یہ پاکستان کی گرتی معاشت کو راہ راست پر لانے کیلئے ایک اچھا منصوبہ ہے لیکن کیا اس سے پہلے لوگ گوادر کی اہمیت سے آگا ہ نہ تھے تو اسکا جواب نفی میں ہوگا ۔سی پیک تو ون بیلٹ ون روڈ سے جڑا ایک منصوبہ ہے جو چائنہ کو پوری دنیا سے ملائے گا ۔

اس میں ستر کے قریب ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ زمینی راستے کے ساتھ ساتھ بحری راستوں کے ذریعے بھی ملانے کی کوشش ہورہی ہے اور اس منصوبہ کیلئے چائنہ قریبا 1 ٹریلین ڈالر خرچ کریگا اور اس منصوبہ کے ذریعے چائنہ مختلف کم آمدنی والے ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانا چاہتا ہے جس میں سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا پورٹ مثال ہے ۔

واضح رہے سری لنکن حکومت کو چین نے قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر 99 سال کیلئے لیز پر لے لیا ہے تاہم سری لنکن حکومت قرضہ واپس کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔اب سوال یہاں یہ اُ ٹھ رہا ہے کہ کیا پاکستان جہاں پر پہلے ہی اسکے حکمران کرپشن کے کیسس بھگت رہے ہو ں جو سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو، کیا پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ میں اتنی سکت ہوگی کہ وہ ملک کو سی پیک کے قرضوں سے چھڑا سکیں۔ 

چائنہ کے مفادات تو پورے ہونگے جس میں اس کو عرب ممالک سے تیل کی لین دین میں آسانی ہوگی ۔ دوسری جانب فاٹا اور بلوچستان کے مسائل سی پیک پر اثر انداز ہوسکتے ہیں چائنہ اگر اپنی زی چنگ صوبہ کی ترقی کیلئے اتنا بڑا منصوبہ شروع کرسکتا ہے تو ہمیں بھی اپنے چھوٹے صوبوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔

جس میں ان صوبوں کی تعمیر اور ترقی سمیت جدید دنیا سے مقابلے کیلئے بہتر تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے منصوبے زیر غور لایا جانا چاہئے وگرنہ پاکستان کے محروم علاقے مزید محروم ہونگے جس کے پاکستان پر معاشی، سیاسی ،سماجی اور اخلاقی اثرات پڑ سکتے ہیں جو سی پیک منصوبہ پر چینی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات پیدا کرنے کا بھی باعث بن سکتے ہیں اور چائنہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل اختیار کرنے کی راہ بھی ہموار کرسکتے ہیں۔