|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر سے مقامی آبادی کے روزگار کے تحفظ کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل6 رکنی کمیٹی قائم کردی گئی اپوزیشن کے توجہ دلاؤ نوٹس پر صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے کی ایوان کو ماشکیل کے زلزلہ متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات کی یقین دہانی ۔ 

حکومتی رکن کی جانب سے قوم پرست جماعتوں پر تنقید حکومت اور اپوزیشن اراکین میں تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی صدارت میں ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بی این پی کے ثناء بلوچ نے گوادر میں ماہی گیروں کے احتجاجی کیمپ سے متعلق توجہ دلاؤ نوٹس دیتے ہوئے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ گوادر کے ماہی گیروں کے احتجاجی کیمپ گزشتہ دو مہینوں سے جاری اورہزاروں ماہی گیروں کو نان شبینہ کا محتاج بنانے کے دانستہ عمل سے ساحل بلوچستان و بالخصوص گوادر کے ماہی گیروں میں شدید تشویش و سراسیمگی پائی جاتی ہے ۔

اگر جواب اثبات میں ہے تو وزیر ماہی گیری بتائے کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لئے کیا اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے اس کی تفصیل دی جائے ۔صوبائی مشیر فشریز اکبر آسکانی نے معزز رکن کو مسئلے کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ مسئلہ وفاقی حکومت سے متعلق ہے وفاق سے بھی بات کریں گے اور وزیراعلیٰ کی واپسی پر ان سے بھی اس مسئلے پر تفصیلی بات کی جائے گی ۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے اکبر آسکانی کو صوبائی مشیر بننے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے درست معلومات فراہم نہیں کی جارہیں ضلع گوادرمیں 70ہزار گھرانے ماہی گیری سے وابستہ ہیں ماہی گیروں سمیت صوبے کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ان کے مسائل کے حل کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے ایسٹ بے ایکسپریس وے سی پیک کا منصوبہ ہے ۔

سی پیک سے تو عوام کو کچھ نہیں ملا مگر اب ایکسپریس وے کی تعمیر سے ماہی گیروں کے لئے مسائل پیدا ہوں گے اتنے بڑے منصوبے پر عملدرآمد سے قبل ناتو ماحولیاتی حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیا گیا نہ ہی عوام سے مشاورت کی گئی اور نہ دیگر امور کی جانب توجہ دی گئی ہے ماہی گیر دو ہزار سال سے نہ صرف ماہی گیری سے وابستہ ہیں بلکہ اپنے ساحل اور سرزمین کا دفاع کرتے آئے ہیں ایکسپریس وے کی تعمیر سے ماہی گیروں کی آمدورفت کا رستہ بند ہوجائے گا ۔

جس پر ماہی گیروں نے اس وقت بھی احتجاج کیا جب وہاں جیپ ریلی ہورہی تھی انہوں نے زور دیا کہ اس ایوان کی سپیشل کمیٹی بنائی جائے جو اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرے ۔صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ بالکل ماہی گیر احتجاج کررہے ہیں مگر ثناء بلوچ نے ان کے احتجاج کو بھی ایک ریلی سے ملادیا وزیر اعلیٰ کی قیادت میں صوبائی حکومت تمام مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہے ۔

لیکن ہمارے پاس کوئی جادوئی چراغ نہیں کہ جس سے تین ماہ میں لوگوں کے تمام مسائل حل کردیں وزیراعلیٰ کے دورہ گوادر کے دوران ماہی گیروں نے ان سے ملاقات کی ایکسپریس وے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے پر کام جاری ہے جس میں ماہی گیروں کو تین ٹنل دیئے گئے ہیں ماہی گیروں کو صوبائی حکومت تمام سہولیات فراہم کررہی ہے ابھی ہمیں آئے ہوئے صرف تین ماہ ہوئے ہیں اپوزیشن ہمیں کچھ وقت دے تمام مسائل حل کریں گے ۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اخترحسین لانگو نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کو وقت دینے کے لئے تیار ہیں مگر گوادر میں جس تیزی سے ایکسپریس وے تعمیر کی جارہی ہے اس حوالے سے نہ تو ہمارے پاس وقت ہے اور نہ ہی ماہی گیروں کے پاس وقت ہے ایکسپریس وے جہاں تعمیر کی جارہی ہے وہ آبی حیات کی افزائش کی جگہ ہے ۔

ایکسپریس وے کی تعمیر سے نہ صرف ماہی گیروں کا ذریعہ روزگار ختم ہوجائے گا بلکہ آبی حیات تباہ ہونے کا خدشہ ہے اور آئندہ چند سال میں ہمارا ساحل سمندر آبی حیات سے مکمل طور پر محروم ہوجائے گا پانی سرسے اونچا ہونے سے پہلے ہی ہمیں اقداما ت کرنے ہوں گے اگر منصوبہ مکمل ہوگیا تو پھر اس میں ردوبدل ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا ۔ 

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ یہ مسئلہ سوال در سوال یا ان کے جوابات سے حل نہیں ہوگا بلکہ یہ ایک اہم انسانی نوعیت کا مسئلہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے دو ہزار سال سے ماہی گیری سے وابستہ خاندانوں کا روزگار تباہ ہوجائے گا ۔

انہوں نے زور دیا کہ اس پر ایوان کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو اس مسئلے کا حل تلاش کرے اور اس سلسلے میں ایوان سے ایک قرار داد بھی منظور کی جائے ۔نصراللہ زیرئے نے کہا کہ ثناء بلوچ کا توجہ دلاؤ نوٹس اہمیت کا حامل ہے مگر حکومتی اراکین مثبت یقین دہانیوں کی بجائے اپنی ناکامی کا ملبہ سابق حکومتو ں پر ڈال رہی ہے ۔

سابق حکومت میں خضدار ، تربت ، لورالائی میں یونیورسٹیز اورمیڈیکل کالجز تعمیر کئے گئے پانچ ہزار سے زائد طلباء کو تعلیمی وظائف دیئے گئے قیام امن کو یقینی بنایا گیا ڈیتھ سکواڈ کا خاتمہ کیا گیا تاہم موجودہ حکومت کی کارکردگی اس بات سے عیاں ہورہی ہے کہ اسمبلی اجلاس میں کوئی سیکرٹری شرکت کرنا تک گوارا نہیں کرتا ۔

ڈپٹی سپیکر سیکرٹریز کو ہدایت کریں کہ وہ اسمبلی اجلاسوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں ۔ صوبائی وزیر انجینئر زمرک خان اچکزئی نے تعلیمی اداروں سے متعلق نصراللہ زیرئے کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تربت او رلورالائی میں نواب اسلم رئیسانی کے دور میں تعلیمی ادارے قائم ہوئے موصوف گزشتہ پانچ سال کے دوران ایک بھی یونیورسٹی کی نشاندہی کریں جسے ایچ ای سی میں رجسٹرکیا گیا ہو پانچ سالوں میں ایک بھی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ۔

سی پیک کو رائیونڈ میں فروخت کرکے سودے بازی کی گئی جس پر نصراللہ زیرئے نے کھڑے ہو کر صوبائی وزیر کے سودے بازی کے الفاظ کو کارروائی سے حذف کرنے کا مطالبہ کیا ۔ بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے بھی سردار عبدالرحمان کھیتران کی جانب سے بار بار قوم پرست جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر ایوان میں اپنے تحفظات کااظہار کیا ۔ 

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے کہا کہ گوادر پر سیاست سے گریز کیا جائے ایسٹ بے ایکسپریس وے ماہی گیروں کا مسئلہ ہے صوبائی حکومت مسئلے کے حل کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے جن ساتھیوں کو تحفظات ہیں وہ اس مسئلے پر چیمبر میں آکر اپنے تحفظات کا اظہار کریں ہم انہیں مطمئن کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو چاہئے کہ وہ ایوان کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے صوبے کی روایات کا خیال رکھیں ۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ بلوچستان اسمبلی دیگر اسمبلیوں کے مقابلے میں مثالی اسمبلی ہو تاہم اپوزیشن کی جانب سے بلوچستان میں اہم نوعیت کے پانچ سے چھ مسائل پر قرار دادیں منظور ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے عدم سنجیدگی کا اظہار کیا جارہا ہے آج تک ان سے متعلق کوئی ایک اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا ۔

انہوں نے کہا کہ صرف ریکوڈک سے متعلق حکومت اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو بلوچستان کو120ارب روپے کا فائدہ مل سکتا ہے مگر افسوس کہ چند افراد کے مفادات کے لئے اہم نوعیت کے مسائل کو پس پشت ڈالا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے اپوزیشن اور حکومتی اراکین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے توجہ دلاؤ نوٹس نمٹانے کی رولنگ دیتے ہوئے اس مسئلے پر کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا اور ہدایت کی کہ اگلے اجلاس سے قبل حکومت اور اپوزیشن اراکین تین تین نام تجویز کریں ۔

اجلاس میں جے یوآئی کے رکن زابد علی ریکی نے توجہ دلاؤ نوٹس ایوان میں پیش پیش کرتے ہوئے صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے سے دریافت کیا کہ 2013ء کے زلزلے میں ضلع واشک کی تحصیل ماشکیل میں کافی مالی و جانی نقصان ہوئے حکومت کی جانب سے مالی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ماشکیل کے متاثرین کو تاحال امداد فراہم نہیں کی گئی اگر مذکورہ سوال کا جواب اثبات میں ہے تو بتایا جائے کہ متاثرین کو کب تک منظور شدہ مالی امداد فراہم کی جائے گی ۔

صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے ضیاء لانگو نے معزز رکن کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ متاثرین کو ان کا حق ہر حال میں ملے گا انہوں نے کہا کہ مجھے وزارت سنبھالے ابھی صرف چند ہی روز گزرے ہیں پوری بریفنگ لے کر جلد معزز رکن کو اس مسئلے پر اعتماد میں بھی لوں گا ۔

زابد ریکی نے صوبائی وزیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ماشکیل کے بعد آواران میں بھی زلزلہ آیا آواران کے متاثرین کو تو معاوضہ دے دیا گیا مگر ماشکیل کے متاثرین آج بھی امداد سے محروم ہیں اس جانب ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جائے ۔ 

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے ضیاء لانگو کو وزارت سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بہتر تھا کہ مکمل جواب آتا مگر صوبائی وزیر کو جو معلومات محکمے کی جانب سے فراہم کی گئی وہ درست نہیں ماشکیل صوبے کا ایک اہم سرحدی علاقہ ہے متاثرین زلزلہ میرے ساتھ بھی دو تین سال سے رابطے میں ہیں ۔

ماشکیل کے ساتھ سرحد کے دوسرے پار ایران میں بھی زلزلہ آیا تھا مگر ایران کے متاثرین کو نئے گھر بنا کر دے دیئے گئے اور ان کی امداد بھی کی گئی مگر ہمارے متاثرین آج تک امداد سے محروم ہیں پھر دوسری جانب ان متاثرین کو امداد کی فراہمی کے نام پر ان سے مجموعی طو رپر چالیس لاکھ روپے جمع کئے گئے پھر بتایا گیا کہ انہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے امداد دی جائے گی واشک جو صوبے کا سب سے پسماندہ ترین ضلع ہے وہاں 2010ء کے بعد صرف446افراد کو امداد ملی ۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طو رپر اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ ماشکیل کے متاثرین کے لئے کیوں گھر نہ بنے امداد کے نام پر ان سے لاکھوں روپے کس نے وصول کئے ہم حکومت کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں کہ وہ متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائے ہم ساتھ دیں گے ۔

صوبائی وزیر ضیاء لانگو نے انہیں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا جس پر ڈپٹی سپیکر نے توجہ دلاؤ نوٹس نمٹانے کی رولنگ دی ۔ بعدازاں اسمبلی کا اجلاس 31دسمبر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیاگیا۔دریں اثناء بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے امریکی کی جانب سے مذہبی پابندیوں سے متعلق رپورٹ واپس لینے کے حوالے سے وفاقی حکومت سے متعلق حکومتی قرار داد کی مخالفت کردی۔ 

اپوزیشن اراکین نے قرار دار کو وفاقی حکومت کی مدح خوانی قراردیتے ہوئے کل ہونے والے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ قرار داد لانے کا مطالبہ کیا ۔ قراردار کے متن کی درستگی کے بعد 31 دسمبر کے اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کی جائیگی ۔

گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر اطلاعات ظہور بلیدی کی عدم موجودگی پر حکومتی رکن دنیش کمار نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اسمبلی بلوچستان کا یہ ایوان انسانی حقوق کے محاذ پر ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل کرنے پر وفاقی حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہے ۔ 

وفاقی حکومت کی کاوش سے امریکہ کو مذہبی پابندیوں کی خصوصی فہرست سے پاکستان کانام اس وقت واپس لینا پڑا جب امریکی حکام کو دفترخارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ دیا گیا اور اس الزام کو یکسر مسترد کرکے دوٹوک الفاظ میں یہ باور کروایا کہ پاکستان ہر لحاظ سے اقلیتوں کے حقوق کا ضامن ہے ۔ 

پاکستان کا قومی کمیشن برائے انسانی حقوق مکمل طور پر فعال ہے اور پاکستان کو کسی ملک سے اقلیتوں کے تحفظ کا درس لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ پاکستان کے آئین میں نہ صرف اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے بلکہ پاکستان کو وفاقی اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں ان کے لئے سیٹیں مختص کی گئی ہیں ۔

یہ ایوان سفارتی سطح پر پاکستان کی مزید کامیابیوں کے لئے دعا گو ہے ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے دنیش کمار نے کہا کہ ایوان میں قرار داد لانے کا مقصد امریکہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں انہیں احترام دیا جارہا ہے قرار داد کا مقصد وفاقی سفارتی کوششوں کو سراہنا ہے ۔

بلوچستان سے کسی بھی اقلیت نے نقل مکانی نہیں کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی موجود ہے ہمارا اخلاقی اور آئینی فرض ہے کہ ہم ملکی استحکام کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں ۔

اپوزیشن اراکین ملک سکندر ایڈووکیٹ اور نصراللہ زیرے نے قرار داد کو وفاقی حکومت کی مدح خوانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قرار دادبلوچستان اسمبلی میں موجود اقلیتی اراکین پیش کرتے تو اپوزیشن ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے قرار داد کی حمایت کرتی ۔ 

اقلیتی رکن شام لعل لاسی نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے لہٰذا قرار داد کو متفقہ طو رپر منظور کیا جائے اپوزیشن رکن نصراللہ زیرئے نے کہا کہ حکومتی اراکین قرار داد لانے کے ساتھ ساتھ ایوان کو اس بات سے بھی آگاہ کریں کہ بلوچستان سے اقلیتی برداری سے تعلق رکھنے والے کتنے افراد نے اب تک نقل مکانی کی ہے اور ان کے حقوق کو کس حد تک تحفظ حاصل ہے ۔ 

اقلیتی رکن دنیش کمار نے کہا کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں اقلیتی برادری نے 1947ء میں بھی یہاں سے نقل مکانی نہیں کی بلوچ اور پشتون بھائیوں نے ہمیشہ ہماری حفاظت کی ہے جس پر ہمیں فخر ہے ۔ 

مسیحی برادری نے25دسمبر کو اپنا کرسمس بھرپور طریقے سے منایا جو عکاسی کرتا ہے کہ یہاں اقلیتوں کو مکمل حقوق اور تحفظ حاصل ہیں ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ مذکورہ قرار داد کو وفاقی حکومت کو سینٹ یا قومی اسمبلی میں پیش کرنا چاہئے تھا ۔

امریکہ نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے تحت پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا انہوں نے کہا کہ2005ء کے بعد اقلیتی برادری بلوچستان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئی بلوچستان اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر ارجنداس بگٹی ، رکن اسمبلی ڈاکٹر تارا چند سمیت ڈیرہ بگٹی میں آباد اقلیتوں کی ایک بہت بڑی آبادی بلوچستان چھوڑچکی ہےْ 

انہوں نے کہا کہ دو ہزار سالوں سے ہم اپنے رسم و رواج کے تحت اپنے لوگوں سے زیادہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں اقلیتوں کو صفائی کی نوکری کے علاوہ کسی چیز کا اہل نہیں سمجھاگیا ہے ۔