|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2018

کوئٹہ: وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء اللہ لانگو نے کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتہ افرادکے لواحقین کی جانب سے لگائے گئے کیمپ کا دورہ کیا ۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ضیاء لانگو کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ تین ماہ میں حل کیا جائے گا ۔

کامیاب نہ ہوئے تو لاپتہ افراد کے اہلخانہ میرے خلاف بھی نعرے لگائیں ۔ لاپتہ افراد کے لواحقین نے واضح کیا کہ بیرون ملک یا پہاڑوں پر جانے والوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں وہ اپنے پیاروں کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔

وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء لانگو لاپتہ افراد کے کیمپ پہنچے انہوں نے لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیا اور انہیں اپنے ساتھ پریس کلب لے گئے جہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ضیاء لانگو نے کہا کہ پاکستان اور بلوچستان دو دہائیوں سے حالت جنگ میں ہیں ، لوگ مر اور غائب ہو رہے ہیں جس کا نقصان ہمارے ملک کو پہنچ رہا ہے۔

ضیاء لانگو نے کہا کہ لاپتہ افراد اور ان کے اہلخانہ کوئی غیر نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہیں اہلخانہ کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ طویل عرصے سے آگے نہیں بڑھا سکے ، گزرے نقصان کو پورا نہیں کیا جا سکتا ، ماضی میں پاکستان کا نام لیکر بھی لوگ مرے ،بے گناہ مزدور ، دھوبی اور حجام مارے گئے۔ 

انہوں نے کہا کہ سیاسی نہیں عملی طور ہر اور ایمانداری سے لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہوں اس حوالے سے اداروں کو بھی سننا پڑے گا۔وزیر داخلہ بلوچستان نے کہا کہ لاپتہ افراد کے اعداد و شمار دیکھتے ہیں تو اس میں فرق نظر آتا ہے ہم فہرستوں کا جائزہ لینگے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پانچ سے چھ ملکوں کی ایجنسیاں مل کر بد امنی پھیلا رہی ہیں ، صوبے کے لوگوں کو ورغلاء کر پہاڑوں پر بھیج دیا جاتا ہے ، اطلاعات ہیں کہ لاپتہ افراد میں میں سے کچھ ایران اور افغانستان میں موجود ہیں ، ریاستی قانون کے مطابق چلیں گے تو راستے آسان ہو جائیں گے۔

وزیر داخلہ بلوچستان نے کہا کہ ماضی میں سیاسی لوگ لاپتہ افراد کے لواحقین کے جذبات سے کھیلتے رہے، جب نوجوان مشتعل تھے تو انہیں قلم کی بجائے پہاڑوں پر جانے کی ترغیب دی گئی میں اسے سیاست کہتا ہوں میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانا چاہتا ہوں۔

اس موقع پر بلوچ وائس فار مسنگ پرسن کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اور وائس چیئر میں ماما قدیر بلوچ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے کیسز 2005 سے چل رہے ہیں ، ہمارے ساتھی کئی سالوں سے غائب ہیں ، حکومت کے لئے زیادہ مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔

110 لاپتہ افراد کی فہرست مکمل تفصیل کے ساتھ ایک ماہ قبل صوبائی حکومت کو فراہم کر دی ہے انہیں منظر عام پر لانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہیں آج تک سیاست نہیں کی ، ہماری کسی سے سیاسی وابستگی ہے نہ ہی اپنے مسئلے پر کسی کو سیاست کرنے کی اجازت دی ہے۔

لاپتہ افراد پر اگر کوئی الزام ہے تو انہیں پاکستان کی عدالتوں میں لایا جائے یا اگر وہ مر چکے ہیں تو بھی ریاست کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہمیں آگاہ کیا جائے، ہمارا کوئی فرد بیرون ملک میں موجود نہیں نہ ہی بیرون ملک اور پہاڑوں پر جانے والے افراد سے ہمارا کوئی تعلق ہے۔

نصر اللہ بلوچ نے واضح کیا کہ کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کے دوران فورسز کی فائرنگ سے مرنے والے کالعدم تنطٰم کے کارندے عبدالرزاق کا بھی لاپتہ افراد سے کوئی تعلق نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے فورم سے تحقیقات کی ہیں عبدالرزاق کو اس کے اہلخانہ تمام جائیداد سے عاق کر چکے تھے۔

دریں اثناء صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا ہے کہ ڈاکٹر پروفیسر ابراہیم خلیل کے اغواکار ملک کے دشمن ہیں مغوی ڈاکٹر کو جلد بازیاب کرایا جائیگا ۔ پروفسیر ڈاکٹر ابراہیم خلیل کا ہمارے گھر سے اغواء ہونا افسوسناک ہے۔ 

گزشتہ روز سول ہسپتال میں قائم ڈاکٹر ایکشن کمیٹی کی جانب سے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے ۔ مغوی ڈاکٹرکی بازیی کیلئے سیکورٹی ادارے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ ڈی آئی جی پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے مشترکہ اجلاس میں ڈاکٹر کے اغواء سمیت دیگر حساس نوعیت کے معاملات پر غور کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ہڑتالی کیمپ میں اپنے ساتھی کی بازیابی کیلئے احتجاج پر بیٹھے سینئر ڈاکٹرز سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے احتجاجی کیمپ ختم کرنے کی درخواست کی ہے جس پر ڈاکٹروں نے مثبت تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔

صوبائی وزیر داخلہ نے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ڈاکٹروں سے ملاقات میں ان کے تحفظات سنتے ہوئے ڈاکٹروں کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ اس موقع پر ڈاکٹرز ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ظاہرخان مندوخیل کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ اور سیکورٹی اداروں کی نیت پر ہمیں کوئی شک نہیں مغوی ڈاکٹر کی بازیابی سے متعلق صوبائی وزیر داخلہ اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا جائیگا ۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پر امن احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے احتجاج کا دائرہ کار سول ہسپتال تک محدود رکھا ہے تاکہ سیکورٹی اداروں کو کوئی مشکلات پیش نہ آئیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں ۔ 

او پی ڈی کے بائیکاٹ کی وجہ سے وہاں آنیوالے والے مریضوں کا مختلف وارڈز میں معائنہ کیا جارہاہے ہسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز مکمل طور پر فعال ہیں ۔ نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی دو گھنٹے کی ہڑتال جاری ہے ۔ 

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے رش اور طبی عملہ کی کمی کی وجہ سے لوگ نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں وہاں احتجاج نہ کرنے کا ہمارا مقصد سرکاری ہسپتالوں کی طرح نجی ہسپتالوں میں بھی عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ نجی ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹروں کی اکثریت نے رضاکارانہ طور پر ہسپتالوں کا بائیکاٹ کرکے مغوی ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کیلئے جاری احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کی درخواست کی تھی جنہیں ہم نے نجی ہسپتالوں میں اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دینے کا پابند بنایا ہے ۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے کسی مریض یا انکے اہلخانہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ڈاکٹروں نے نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں اپنی سروسز کو جاری رکھا ہے ۔