|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی پر توجہ دلاؤ نوٹسزکو اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی تند وتیز بحث کے بعد نمٹادیاگیا سوالات اگلے اجلاس تک کیلئے موخر کردیئے گئے ایوان کا اسمبلی کا وزیراعظم اسکالر شپ پروگرام کو جاری رکھنے اورطلباء کی تعداد میں اضافہ کیلئے وفاق سے رجوع کرنے کا فیصلہ۔ 

گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرائے کی پی ایم ڈی سی شاہرگ کے55ملازمین کوملازمتوں سے فارغ کرنے کا توجہ دلاؤ نوٹس وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی پر اگلے اجلاس تک موخر کیاگیا جبکہ ثناء بلوچ کا 2018-19ء کے دوران عوامی نوعیت کے مسائل کو اجاگر کرنے سے متعلق پیش کیا گیا توجہ دلاؤ نوٹس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی تند وتیز بحث کے بعد نمٹادیاگیا ۔

توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ آج 2018ء کا آخری دن ہے گزرتے وقت کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو چھ مہینے کا عرصہ گزر چکا ہے اس دوران بے روزگاری ، خشک سالی ، قحط ، بم دھماکے ، اغواء اور بھوک سے متاثرہ خاندانوں کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کے18لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں پانچ ہزار کے قریب سکول شیلٹر لیس ہیں ہمیں آئین میں دی گئی سہولیات میسر نہیں حکومت کو اپنی طر زحکمرانی کو بہتر بناتے ہوئے آئندہ برس بلوچستان کے لوگوں کو تعلیم ، روزگار ، صحت کی سہولیات میسر اور صوبے سے غربت وبے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ 

انہو ں نے کہا کہ موجودہ حکومت بلوچستان کے عوام کے ڈیڑھ ارب دنوں کی مقروض ہے ہماری خواہش ہے کہ بلوچستان میں بہتر طرز حکمرانی ہوا صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اسمبلی اجلاس میں موجود نہیں تاہم اگر اپوزیشن منصوبوں کے حوالے سے رہنمائی کرنا چاہے تو ہم نوٹ کریں گے ۔

صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے ثناء بلوچ کے توجہ دلاؤ نوٹس کو اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ثناء کی قابلیت اپنی جگہ تاہم بلوچستان میں شیلٹر کے بغیر سکولوں کی جو تعداد انہوں نے بتائی ہے وہ درست نہیں ابھی جو سروے ہوا ہے اس کے مطابق بلوچستان میں18سو سکول شیلٹر لیس ہیں جس کے لئے ساڑھے چھ ارب روپے مختص کئے گئے ہیں 45ہزاراساتذہ کو ٹریننگ کے لئے بھیج رہے ہیں کوئٹہ میں ٹریفک کا نظام بہتر ہوا ہے اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں صوبے کے مسائل حل ہورہے ہیں ۔ 

بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے صوبائی وزیر کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ اندرون بلوچستان تعلیم کا شعبہ تباہی سے دوچار ہے تعلیمی ادارے مہمان خانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں صوبائی وزیر اور حکومتی اراکین اگر کوئی سروے کرائیں یا کہیں د ورے پر جائیں تو وہ اپوزیشن اراکین کو ساتھ لے کر جائیں تاکہ ہم انہیں بتاسکیں کہ کتنے سکول شیلٹر لیس ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے صوبائی مشیر تعلیم اور وزیر صحت کو متعدد بار میرے حلقے کے دورے کی دعوت دی مگر تاحال ان کی جانب سے مثبت جواب نہیں آیا ۔صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ ہماری چار مہینوں کی کارکردگی سب کے سامنے عیاں ہے ۔

صوبے کی تاریخ میں صوبائی کابینہ کے اتنے اجلاس نہیں ہوئے جو ہم نے کئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ایک تقریر سے ممکن نہیں انہوں نے کہا کہ ثناء بلوچ ایک تقریر میں تمام شعبوں پر بات کرکے حکومت پر تنقید کرتے ہیں وہ ہر شعبے کے حوالے سے الگ الگ بات کریں تاکہ ہم انہیں جواب دیں میری تجویز ہے کہ ایک دن تعلیم پر عام بحث کرائی جائے ۔

اس کے بعد صحت ، پانی ، امن وامان اور زراعت کے لئے ایک دن مخصوص کردیں تاکہ ہم آپ کو مطمئن کرسکیں اور مل کر صوبے کے مسائل حل کرسکیں ۔وقفہ سوالات کے دوران جے یوآئی کے سید فضل آغا،نصراللہ زیرائے اور بی این پی کے ثناء بلوچ کے محکمہ آبپاشی و برقیات ، محکمہ ماحولیات اور محکمہ بہبود آبادی سے متعلق پوچھے گئے سوالات وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی پر اگلے اجلاس تک موخر کئے گئے۔ 

اجلاس میں بی این پی کے شکیلہ نوید دہوار نے وفاقی محکموں میں تعینات بلوچستان کے ملازمین کو اسلام آباد کے علاقے جی ایٹ میں سرکاری فلیٹس سے بے دخل کرنے کے معاملے کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے ملازمین کو سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کا مراسلہ ارسال کیا ہے لہٰذا صوبائی حکومت اس معاملے پر ایس اینڈ جی اے ڈی کو اقدامات کی ہدایت کرے ۔

بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی اورثناء بلوچ نے بھی شکیلہ نوید دہوار کے موقف کی حمایت کی جس پر صوبائی وزیر ذراعت زمرک اچکزئی نے اقدامات کی یقین دہانی کرائی ۔ دسمبرکی نشست میں موخر شدہ تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ اس وقت بلوچستان کے سینکڑوں طلبہ وزیراعظم سکالرشپ پروگرام کے تحت ملک کے مختلف صوبوں میں زیر تعلیم ہیں مگر وزیراعظم اسکالرشپ پروگرام بند کرنے سے سینکڑوں طلباء کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری توخواہش تھی کہ نہ صرف اسکالر شپ پروگرام کو جاری رکھا جائے بلکہ بیرون ملک بھی ہمارے طلباء کو حصول علم کے لئے بھیجا جائے انہوں نے زور دیا کہ وزیراعظم اسکالر شپ پروگرام کو جاری رکھنے کے ساتھ اس کے تحت طلباء کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نصیر شاہوانی تحریک التواء کی حمایت کی ۔وزیر اطلاعات و ہائیر ایجوکیشن ظہور بلیدی نے کہا کہ ہم اپنے مستقبل سے کسی کو کھیلنے نہیں دیں گے ہماری کوشش ہے کہ اسکالر شپ پر زیر تعلیم طلباء کی تعداد میں 450سے اضافہ کرکے 3سے چار ہزار کردیا جائے ۔ 

اس معاملے پر وفاق سے رجوع کیا جائے گا اصغرخان اچکزئی نے کہا کہ تحریک التواپر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی رائے ایک ہے اس لئے اسے قرار داد کی شکل دے کر منظور کیا جائے بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے تحریک التواء کو نمٹاتے ہوئے اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا ۔