|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2019

قلات: بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی محض ایک نعرہ ہی رہ گیا 1992میں قائم کیئے گئے ڈگری کالج قلات بیس سال بعد بھی اہم مضامین کے اساتذہ سے محرم ہے کالج میں میتھ فزکس کیمسٹری کے مضامین کو پڑھانے کے لیئے اساتذہ نہ ہو نے کی وجہ سے طلباء و طالبات کو حصول تعلیم میں شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہیں ۔

قلات میں 1992میں انٹر کالج قائم کیا گیا بعد ازاں 1998 میں اسے ڈگری کا درجہ دیا گیا مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود کالج میں اہم مضامین پڑھانے کے لیئے اساتذہ بھر تی نہیں کیا گیا اور دوسال قبل اسی کالج میں بیچلر آف سٹڈی پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا مگر اساتذہ کی کمی کے باعث طلباء و طالبات کو حصول تعلیم کے لیئے شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہیں اور علاقہ میں گزشتہ ڈیڈ ھ سال سے انٹرنیٹ کی سہولت بند کر نے سے طلباء کے مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہیں ۔

اساتذہ کی کمی اور سہولتیں نہ ہو نے کی وجہ سے طلباء اور طالبات اپنا تعلیم ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں طلباء کا کہنا ہے کہ بی ایس کے ہر مضمون کے لیئے کم سے کم چار سے پانچ اساتذہ کی ضرورت ہو تی ہے مگر یہاں تو معماملہ اسکے برعکس ہے پانچ مضامین صرف ایک ٹیچر پڑھاتا ہے اور کچھ مضامین کو پڑھانے کے لیئے ایک بھی ٹیچر نہیں ہے کالج میں بی ایس پروگرام تو شروع کیا گیا مگراس کے لیبارٹری کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا ہے ۔

سابقہ حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے تو بہت کیئے مگر یہ محض دعوے ہی ثابت ہو گئے حاجی میر محمد خان لہڑی صوبائی مشیر تعلیم بلوچستان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت بلوچستان میں تعلیمی مسائل کے حل کے لیئے سنجید گی سے کو شیش کررہی ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سابقہ حکومتوں نے اس جانب بلکل بھی توجہ نہیں دی ہے ،

اسکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی کمی کو دور کرنے کے لیئے بہت جلدآٹھ ہزار سے زائد خالی اسامیوں پر میرٹ پر اساتذہ کی بھرتیاں کی جائے گی اور اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر و مرمت کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہیں سیکریٹری ہائر اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن بلوچستان عبدالصبور کا کٹر کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تعلیم کے شعبہ پر کوئی کوتاہی برداشت نہیں کیا جائے گا ۔

اگلے سال کی بیچلر آف سٹڈی کے طالبات کی کلاسز سکنڈ ٹائم کو گرلز کالج میں الگ ہو نگے ڈگری کالج اور گرلز کالج قلات میں تعلیمی سرگرمیان بہتر انداز میں جاری ہیں جسکا سہرا اساتذہ کو جاتاہے ۔

انہوں نے کہا کہ بی ایس کلاسز کا باقاعد گی سے جاری رکھنا قابل ستائش ہے اور کو ایجوکیشن سے طالبات بھی تعلیمی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں اگر یہاں پر طالبات کو بی ایس نہیں پڑھایا جاتا تو تمام طالبات تعلیم سے محروم ہو جاتے کیونکہ قلات کے غریب طلباء و طالبات کوئٹہ اور دیگر شہروں میں اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ۔

انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم کالجز ہائر ایجوکیشن اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن بلوچستا ن تعلیمی ترقی کے لیئے ہرممکن اقدامات کرے گی اور گورنمنٹ ڈگری کالج قلات اور گرلز کالج قلات میں اساتذہ کی خالی سامیوں پر بہت جلد بھر تیاں کی جائے گا اور کمپیوٹر لیب کے لیئے بھی اقدامات کیئے جائیں گے ۔

ڈگری کالج قلات کے پرنسپل پروفیسر غلامی نبی بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈگری کالج قلات کو اکیڈمیک اسٹاف کی کمی کا سامنا ہے آئی سی ایس کی کلاسزاور بی ایس کے کلاسزاور بجلی کے مسائل سرے فہرست ہے ہمارے اکیڈمک اسٹاف کی سینکشن پوسٹس23 ہے اور پرنسپل سمیت صرف پندرہ اسامیوں پر اساتذہ کام کررہے ہیں ۔

ان میں بھی دو لیکچرز مقامی زبانوں کے ہیں جو بڑی مشکل سے پڑھارہے ہیں اس سے بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے فزکس کی ٹیچر نہیں ہیں اس کے پیریڈ خالی جارہے ہیں جس کی وجہ سے طلبا ء میں تشویش پائی جاتی ہیں جو طلباء آئی سی ایس کرنا چاہتے ہیں لیکن کلاسز نہ اورلیبارٹری نہ ہونیکی وجہ سے و ہ حصول تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

میری صوبائی حکومت سے گزارش ہے کہ کالج ہذا آئی سی ایس کلاسز اور کمپیوٹرلیب آئی ٹی لیب کاانتظام کیا جائے تاکہ طلباء کو ہم پڑھا سکیں کالج شہر سے دور ہو نے کی وجہ سے یہاں دن کے اوقات میں بجلی فراہم نہیں کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے طلباء کو مشکلات کا سامناکر نا پڑتا ہیں ہماری گزارش ہے کہ کالج کو سٹی فیڈر سے منسلک کیا جائے تاکہ دن کے اوقات میں بجلی فراہم ہو سکے ۔

بی این پی عوامی کے مرکزی رہنماء عزیز مغل کا کہنا ہے کہ ڈگری کالج قلات میں اساتذہ کی کمی حکومتی نااہلی کا ثبوت ہے ایک اہم تعلیمی ادارے میں مختلف مضامین کو پڑھانے کے لیئے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے اگر ٹیچرز فراہم نہیں کیئے جائے تو طلباء کو کون پڑھائینگے سابقہ حکومت نے تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے تو بہت کیئے مگر اہم تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی کو پورا نہیں کیا گیا جو کہ قابل مذمت ہے ۔

انہوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ڈگری کالج گرلز اور بوائز میں اساتذہ کی کمی کو دور کرکے درس و تدریس کا عمل شروع کرے تاکہ طلباء و طالبات کو قیمتی وقت ضائع ہو نے سے بچ جائے ڈگری کالج کے لیکچرار سید زاکر شاہ کا کہنا ہے کہ بی ایس انٹرنیشنل لیول کا ایک پروگرام ہے انٹرنیٹ کے بغیر یہ پروگرام نہیں چل سکتا ہے بد قسمتی سے قلات بلوچستان کے ان اضلاع میں شامل ہے جن میں انٹرنیٹ کی سروس کو بند کر دیا گیا ہیں۔

انٹرنیٹ نہ ہو نے کی وجہ سے طلباء اپنے کورسز کا صحیح طریقے سے تیاری نہیں کرسکتے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ کورسز سے متعلق لائبریری میں کتابیں بھی دستیاب نہیں اگر یہ کتابیں دستیاب ہوتی تو ہمارے پروفیسرز صحیح طریقے سے تیاری کر کے طلباء کو پڑھاتے کالج کے ایک اور لیکچرارشاہ محمد لانگو کاکہنا ہے کہ کا ڈگری کالج قلات میں بی ایس کا اچھا پروگرام شروع کررہے ہیں ۔

ہمیں ٹیچر اور کتابوں کی ضرورت ہیں ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ وہ طلباء کے مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ کی کمی کو دور کرے اور کتابیں قیمتی ہو نے کی وجہ سے طلباء کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔

انہیں کالج کے لیئے فراہم کرے کالج میں بی ایس کے طالب علم سجاد احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے ڈگری کالج میں لیکچرارزکی کمی ہیں فزکس پڑھانے کے لیئے ایک بھی ٹیچر موجود نہیں ہیں کمپیوٹر لیب جو ہر طالب علم کے لیئے ضروری ہے وہ کالج میں نہیں ہے ہر ڈیپارٹمنٹ کے لیئے کم سے کم چار سے پانچ اساتذہ کی ضرورت ہے کیونکہ بی ایس کو پڑھانے کے لیئے ہر مضمون کے لیئے چار ٹیچرز کی ضرورت ہے ۔

طالب علم امداد اللہ کا کہنا ہے کہ ہمارے کالج میں ٹیچر ز کی کمی کے ساتھ ساتھ ہمارے لائبریر ی میں متعلقہ مضامین سے متعلق کتابیں نہیں ہیں اور علاقہ میں انٹر نیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں جس کی وجہ سے طلباء کو اپنے مضامین سے متعلق تیاری کر نے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

طالب علم محمد ادریس کا کہنا میں بی ایس کا طالب علم ہوں ہمارے کالج کے چند مسائل ہیں جو کہ ضروری حل طلب ہیں ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ٹیچروں کی کمی کا مسائلہ ہے جس کی وجہ سے ہماری کلاسز متاثر ہورہے ہیں ۔

کالج ہذا میں نئے سیشن کے لئے کلاسز کا اجرا کیا جارہا ہیں جس کے لیئے بھی اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہیں میں محکمہ تعلیم کے آعلیٰ حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہمارے کالج کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیئے جائیں ۔

گرلز ڈگری کالج کے طالبہ کلثوم مینگل کا کہنا تھا کہ گرلز ڈگری کالج میں جو لیبارٹی ہے وہ سکنڈ ایئر لیول کا ہے جو بیچلر آف سٹڈی کے لیئے ناکافی ہے کالج میں بیچلر سٹڈی پروگرام کی کلاسز کا تو آغاز کیا گیا ہے مگر لیبارٹی اور کمپیوٹر لیب نہ ہو نے کی وجہ سے ہماری تعلیم کا حرج ہو رہی ہے اس کے علاوہ کالج میں اساتذہ کی کمی کی وجہ سے کچھ ڈیپارمنٹ کے کلاسز نہیں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہمں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہیں ۔

بلوچستان حکومت یوں تو تعلیمی ایمرجنسی کے تو بہت دعوے کرتی ہیں مگر ڈگری کالج قلات جیسے اہم تعلیمی ادارے میں کئی سال گرزجانے کے باوجو ٹیچرز فراہم نہ کر نے سے حکومتی تعلیمی ایمرجنسی کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے اور یہ دعوے سیاسی نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔