|

وقتِ اشاعت :   January 13 – 2019

گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان سے یہ صدا بلندہورہی ہے کہ یہاں کے وسائل پر عوام کو واک واختیار دیا جائے تاکہ صوبہ پسماندگی کی دلدل سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے، بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کاروز اول سے یہ مطالبہ رہا ہے اور بارہا سابقہ وفاقی حکومتوں کی اس اہم مسئلے کی جانب توجہ بھی مبذول کروائی گئی مگر بدقسمتی سے ہمیشہ سنی کو اَن سنی کردیا گیا جس کے باعث یہاں کے عوام میں وفاق کے خلاف منفی رائے پائے جاتی ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے صرف مرکز ہی فائدہ اٹھارہا ہے اوراپنے منظور نظر علاقوں کو ترقی دے رہا ہے۔

سابق حکمرانوں نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنے ہی حلقوں کو نوازا، اس طرز حکمرانی کی وجہ سے فیڈریشن کبھی مضبوط نہیں ہوئی۔ ابھی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے معدنی وسائل کی تلاش وترقی کے منصوبوں اور اس حوالے سے مختلف کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں میں بلوچستان کے حق اور اختیارکو تسلیم کرتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ معدنیات کی تلاش وترقی کے معاہدوں میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیا جائے گا اور صوبے کے معدنی وسائل سے مختلف مدات میں حاصل ہونے والی آمدنی سے بلوچستان کو اس کا پورا حصہ دیا جائے گا جبکہ وفاقی وصوبائی حکومت نے صوبے کی معدنیات کی تلاش وترقی کے منصوبوں اور معاہدات سے متعلق تمام امور کو باہمی اتفاق رائے سے طے کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے متعلقہ وفاقی وصوبائی حکام پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

جوائنٹ ورکنگ گروپ سوئی مائننگ لیز ،لائسنسنگ زونز اور 18ویں ترمیم، پٹرولیم پالیسی اور آئین کے آرٹیکل3) 172( اور 158 کے تحت بلوچستان کے حقوق کے تحفظ سمیت دیگر متعلقہ امور طے کرے گی اور اس ضمن میں بلوچستان کے تحفظات کو دور کیا جائے گا، ورکنگ گروپ ایک ماہ کے اندر تمام امور طے کرکے اپنی رپورٹ پیش کرے گا، اس بات کا فیصلہ گزشتہ روز اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان ، وفاقی وزیر پٹرولیم چوہدری غلام سرور خان ،متعلقہ صوبائی سیکریٹریز اور وزارت پٹرولیم کے حکام نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔اجلاس میں سوئی مائننگ لیز کی توسیع، پٹرولیم پالیسی اور آئین کی متعلقہ شقوں کے تناظر میں صوبائی حکومت کے اختیارات، معدنیات کے حامل علاقوں میں مائننگ اور ایکسپلوریشن کے لائسنسوں کے اجراء اور معاہدات کے طریقہ کار اور ان مدات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بلوچستان کے حصے ، ایل پی جی پلانٹس کی تنصیب کے منصوبے ، سیندک منصوبے کے لئے مائننگ ایریا کی توسیع، بلاک 28 میں معدنیات کی تلاش وترقی کے منصوبے، صوبے کے مختلف علاقوں میں گیس پریشر اور گھریلو صارفین کے لئے گیس کے نرخ میں کمی، پی ایم ڈی سی سے متعلق امور، اوجی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں میں بلوچستا ن کی نمائندگی اور ان اداروں میں بلوچستان کے لوگوں کو روزگار کی فراہمی سے متعلق امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ 

یعنی اب بلوچستان بھی اپنے ہی منصوبوں میں باقاعدہ مشاورت سمیت معاہدوں کا حصہ بنے گا جو کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ اس پر عمل ہونے کی صورت میں صوبہ بھی اپنے وسائل سے منافع بھی کمائے گا لیکن وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صوبے کے دیگر نمائندوں کو ان تمام دستاویزات کا بغور مطالعہ کرنا چائیے کیونکہ وفاق نے بلوچستان کو ہمیشہ سنہرے خواب دکھائے ،دوسری طرف اس کے وسائل کی لوٹ مار جاری رہی۔

اگر صرف سیندھک سے حاصل ہونے والا پورا منافع بلوچستان کو مل جاتا تو سوا کروڑ کی آبادی والے صوبے کا ہر شخص بر سر روزگار ہوتا، سوئی گیس اور باقی وسائل کا تذکرہ ہی کیا۔سیندھک سے ڈھائی فیصد اور یہی ڈھائی فیصد سی پیک اور گوادر پورٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بلوچستان کو دیا جائے گا تو بلوچستان تو آئندہ سو سال تک پسماندہ ہی رہے گا۔لہذا بلوچستان کے وسائل کا پورا منافع بلوچستان کو ملنا چائیے ۔ وفاق نے بہت کھا لیا ، اب ذرا ہماری بھوک بھی مٹ جانے دیجئے۔