|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2019

1929 میں مسلم لیگ کے 14 نکات میں درج ذیل دو نکات بھی شامل تھے: * مستقبل کے آئین کی طرزوفاقی ہو نی چاہیئے جس میں باقی ماندہ اختیارات صوبوں کے پاس ہوں۔ * تمام صوبوں کو یکساں خود مختاری دی جائے گی۔

” مسلمانوں کے لیے اُس وقت تک کوئی آئینی منصوبہ قابل عمل یا قابل قبول نہیں ہو گا،جب تک کہ جغرافیائی اعتبار سے جڑی ہوئی اکائیوں کی حد بندی ایسے علاقوں کی حیثیت سے نہیں کی جاتی جو اُس علاقائی رد و بدل کے ساتھ جو ضروری ہو گا ،وجود میں آئیں گے ۔اوریہ کہ اُن علاقوں، جن میں مسلمان عددی اعتبار سے اکثریت میں ہیں،جیسا کہ شمال مغربی اور ہندوستان کے مشرقی علاقے،کو آزاد ریاستوں کی تشکیل کے لیے آپس میں ملا یا جائے جن میں تشکیلی اکائیاں خود مختار اور اپنی مرضی کی مالک ہوں” ۔(قرار داد لاہور،1940 )

23 جون،1947 کواُس وقت کے انڈین آرمی چیف،سر آر ایم لاک ہارٹ نے ایک ملاقات میں جب جناح صاحب سے مسلم لیگ کی مستقبل کی پالیسیوں کے بارے میں پوچھا تو جناح صاحب نے انھیں بتایا کہ” ماسوائے دفاع ، خارجہ امور اور مواصلات یا ایک دو دوسرے ایسے معاملات کے جو تمام صوبوں کے لیے یکساں ہوں گے ،جنھیں مرکزکنٹرول کرے گا ،صوبوں کو مکمل خود مختاری حاصل ہو گی” ۔(ذریعہ: پاکستان،خرابی اور اس کے اثرات۔از: بابر ایاز)

مگر اس سے قطع نظر ،قیادت نے ان بنیادی مقاصد سے بے وفائی کی اور اُن صوبوں کو خود مختاری دینے سے انکار کیا جو پاکستان کا حصہ بنے۔تاہم53 سال بعد ملک نے18 ویں ترمیم منظور کر کے ٓئینی طور پر اُن مقاصد کی جانب پیش رفت کی جن کا وعدہ کیا گیا تھا اور اسے جمہوری قوتوں کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا۔مگر ایک بار پھر ایک مضبوط لابی سامنے آئی ہے جو اس سمت میں کی جانے والی پیش رفت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

اصل میں ،مضبوط مرکز کی حامی لابیوں کو نیشنلdivisible پُول میں وفاقی حکومت کے حصے کی کٹوتی کرنے پر زیادہ غصہ ہے جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں50 فیصد سے کم کر کے 42.5 فیصد کر دیا گیا۔

18 ویں ترمیم میں ، آئین کے آرٹیکل160(3)(a) میںیہ صراحت کرتے ہوئے صوبوں کے حصوں کو تحفظ دیا گیا ہے کہ” نیشنل فنانس کمیشن کے ہر ایو ارڈ میں صوبوں کا حصہ ،اُس حصے سے کم نہیں ہو گا جو صوبوں کو پچھلے ایوارڈ میں دیا گیا تھا”۔

18 ویں ترمیم کے ناقدین کو یہ شق کھٹکتی ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کے لیے نیشنلdivisible پول میں وفاقی حکومت کا حصہ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔یہ لوگ خود کو پابند محسوس کر رہے ہیں کیونکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ ایک ٹریلین روپے کے دفاعی بجٹ کی مد میں جاتا تھا۔

اس ایک ٹریلین روپے میں مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہلکاروں کی پینشن شامل نہیں ہے جو مشرف کے زمانے میں چپکے سے وفاقی حکومت کے مجموعی بجٹ میں ڈال دی گئی۔اس میں وہ خرچے بھی شامل نہیں ہیں جو بم اور میزائل بنانے پر ہوتے ہیں جو عام طور سے سویلین اخراجات میں چھپے ہوتے ہیں۔

دوسرا بڑا حصہ debt سروسنگ پر خرچ ہوتا ہے۔یہ رقم 1.6 ٹریلین روپے سے زیادہ (وفاقی بجٹ کے30 فیصد سے متجاوز) ہے،اور توقع ہے کہ رواں سال اس میں اضافہ ہو گا۔ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کے حصے کو دیئے جانے والے تحفظ سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی بجائے مرکز کے لیے اپنا حصہ بڑھانے کا واحد راستہ شاید مزید محاصل اکٹھے کرناہے۔

18 ویں ترمیم پر لفظی و معنوی طور پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں صوبوں کی اپنی شکایات ہیں۔مثال کے طور پر ، آرٹیکل 158 میں کہا گیا ہے کہ تیل اور گیس پیدا کرنے والے صوبوں کا ان کے استعمال پر پہلا حق ہے مگر ایسا نہیں ہو رہا، ورنہ بلوچستان اور سندھ ،جن کے پاس قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ہیں ان وسائل سے زیادہ حصے کے لیے بھیک نہ مانگ رہے ہوتے۔

صوبے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس،جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے،نہ بلانے پر وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا کوئی سیکرٹریٹ موجود نہیں ہے جو ایسے معاملات پر عمل درآمد کا جائزہ لے سکے جن کا فیصلہ اس موقر فورم پر ،جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم کی نمائندگی ہے، کیا جاتا ہے ۔ صوبوں کو یہ بھی گلہ ہے کہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا جاتا جس میں صوبے پبلک سیکٹر کے منصوبوں کے بارے میں اپنی رائے دے سکیں۔

اب یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی تعلیمی نصاب ہونا چاہیئے۔ 18 ویں ترمیم میں یہ ذمہ داری صوبوں کو سونپ دی گئی تھی ،مگریکساں نصاب تعلیم کے چیمپئنز کو نیچرل سائنسز کے نصاب کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے کیونکہ یہ ہر صوبے میں دوسرے سے مختلف نہیں ہو سکتا،انھیں سب سے زیادہ فکر مطالعہ ء پاکستان کے مضمون کی ہے جو تمام اسکولوں اور کالجوں میں لازمی ہے۔اس میں بددیانتی سے لکھی ہوئی پاکستان کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور جس میں پاکستان کی جمہوری قوتوں کی طویل سیاسی جدوجہد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

مثال کے طور پر ،پاکستان کے لیے ایک بڑا دھچکااُس کے مشرقی بازو کی علیحدگی تھا،جس کے ساتھ مغربی پاکستان کی طرف سے24 سال تک ایک نو آبادی کی طرح سلوک روا رکھا گیا۔ مطالعہ ء پاکستان کی مقرر کردہ کتابوں میں اس پورے موضوع کو محض دو پیرا گراف میں نمٹا دیا گیا ہے۔

تعجب ہے کہ18 ویں ترمیم کے یہ فاضل نقاداب کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کی جانب سے یہ ترمیم جلد بازی میں منظور کی گئی۔ انھیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آئین میں ترمیم کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے نو ماہ میں200 اجلاس ہوئے۔ 

اخبارات میں ایک اشتہار کے ذریعے رائے عامہ معلوم کی گئی اور موقع دیا گیا کہ اگر وہ آئین میں کسی ترمیم کو مناسب سمجھتے ہیں تو تجویز کریں۔اس کے علاوہ بار کونسلوں سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ آئین میں ترامیم تجویز کریں۔اس کوشش کے نتیجہ میں عوام اور بار کونسلوں کی طرف سے 900 سے زیادہ ترامیم تجویز کی گئیں۔

پارلیمانی کمیٹی 16 ارکان پر مشتمل تھی جو پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔پھر ان جماعتوں سے کہا گیا کہ وہ18 ویں ترمیم کے مجوزہ مسودے پر اپنی اپنی پارٹی کی منظوری لیں۔چنانچہ، اگر یہ فاضل ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اسے محض دو دن کے اندر عجلت میں پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا تو یا تو وہ لاعلم ہیں یا پھر وہ پوشیدہ مفادات کی خدمت کر رہے ہیں۔

ناقدین کو اس بات کا احساس ہونا چاہیئے کہ پاکستان میں آئین سازی ،صوبائی خود مختاری کے معاملے کے ساتھ الجھی رہی ہے۔ انھیں اس پر تنقید کی بجائے اس پر عمل درآمد پر زور دینا چاہیئے تاکہ وفاق مضبوط ہو۔

کالم نگارتک رسائی کے لئے: (ayazbabar@gmail.com)