|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2019

گزشتہ چند ماہ میں تجاوزات ہٹانے کے نام پر کیئے جانے والے آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لو گ بے روزگار اور بے گھر ہو گئے ہیں۔صرف کراچی شہر میں ہزاروں کی تعداد میں دکانیں اور گھر گرا ئے جا چکے ہیں اور نتیجہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔پاکستان بھر کی بڑی شاہراؤں کے دونوں اطراف کا رقبہ ہائی وے محکمہ کی ملکیت ہوتا ہے۔ اسی طرح نہروں کے ساتھ سینکڑوں فٹ رقبہ محکمہ انہار کی ملکیت ہے۔ 

اسی طرح ریلوے ٹریک کے دونوں اطراف کا رقبہ محکمہ ریلوے کی ملکیت ہے ۔درباروں اور قبرستانوں کے اردگرد کا رقبہ محکمہ اوقاف کی ملکیت ہوتا ہے۔بقیہ ماندہ رقبہ تھل، چولستان اور تھر کی حدود میں آتا ہے۔ وطنِ عزیز کا زیادہ تر رقبہ محکمہ مال کی ملکیت ہے جہاں کینٹ ایریاز ہیں وہاں پر بیشتر رقبہ کنٹونمنٹ بورڈ کی ملکیت کہلاتا ہے۔

ٹاؤن کمیٹیوں اور میونسپل کارپوریشن کی حدود میں آنے والا انہیں کی ملکیت کہلاتا ہے اور جہاں کہیں بقایا سرکار رقبہ خالی پڑا ہووہ پٹواریوں اور گرداوروں کی صوابدید پر ہوتا ہے۔مذکورہ تمام محکموں کافیلڈ سٹاف مذکورہ رقبوں پرسرکاری اراضی پرقبضہ کروا کراور منتھلیاں لے کر خودلاکھوں اور کروڑوں روپے کماتا ہے اور حکومتی خزانے سے ماہانہ تنخواہیں اور ٹی اے ڈی اے بل اور دیگر مراعات مفت میں حاصل کرتے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر تا حیات وہ خود یا ان کی آنے والی نسلیں پنشن اور گریجویٹی سرکاری خدمات کے صلے میں وصول کرتے ہیں۔

جب بھی کوئی نئی حکومت تبدیلی کا نعرہ لے کر آتی ہے اور تجاوزات کے خاتمے کی بات کرتی ہے تو مذکورہ فیلڈ سٹاف ناجائز قابضین کی فہرستیں بنا کر حکومت کو دینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان تجاوزات کو مختلف ادوار میں گرایا جاتا رہا ہے اور پھر اگلی حکومت کے آنے تک دوبارہ آمدن کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ 

کروڑوں ، اربوں روپے کمانے والوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ برق گرتی ہے تو بیچارے غریب عوام پر۔ٹاؤن پلانرز اور ڈویلپرز کے لیئے سرکاری رقبہ کا رجسٹری انتقال حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا جبکہ کچی آبادیوں میں مقیم غریب لوگوں کو ان کے گھروں اور دکانوں کا پٹہ ملکیت دینے کی بجائے تجاوزات کے خلاف اپریشن کی آڑ میں بے گھر کر دیا جاتا ہے ۔

قارئین، آج کل جنگی حکمت عملی اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ دنیا میں ایسے ہتھیار ایجاد کیے جا چکے ہیں کہ جن کے استعمال سے فوج اور سویلین آبادی اور دیگر جاندار موت کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن اس ملک کا انفراسٹرکچر تباہ ہونے سے محفوظ رہ جاتا ہے ۔ ان ہتھیاروں کی مثال کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار اور ایکو ویپن ہیں۔خصوصاً ہائیڈروجن بم کی ایجاد اس کی بڑی مثال ہے جبکہ دنیا سے اٹیمی اسلحہ کی دوڑ اب ختم کیے جانے کی کو ششیں جاری ہیں۔

آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی کہ اب تک دنیا میں دو عظیم جنگیں لڑی جا چکی ہیں جن میں مختلف اتحادی ملکوں نے اپنے دشمن اتحادیوں پر چھ سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور نہیں ہوئے جبکہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے کہ ستمبر 1965 کی جنگ میں مکار دشمن ہندوستان کی فوج نے پاکستان پر چھ سو ٹینکوں کے ساتھ رات کے اندھیرے میں دھاوا بولا اور مختلف محاذوں سے حملہ آور ہوئی جسے پاکستان کی بہادر افواج نے جانثاری اور بہادری کی تاریخ رقم کر تے ہوئے ٹینکوں کے اتنے بڑے حملے کو ناکام بنا دیا۔ 

چھ سو ٹینکوں کے مذکورہ حملے کے نتیجہ میں وطنِ عزیز میں نہ تو کوئی بڑی تباہی دیکھنے میں آئی اور نہ ہی ملک کا انفراسٹرکچر تبا ہ ہو سکا جبکہ موجودہ حکومت کے اینٹی۔انکروچمنٹ سیل کی کاروائیوں کے دوران بھاری مشینری کے استعمال سے ملک بھر میں جاری تجاوزات کے خلاف اپریشن کی آڑ میں دکانات و مکانات کی بربادی اور بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کی تباہی کی مثال 1971 اور 1965 کی پاک بھارت جنگوں میں بھی کہیں نہیں دیکھی گئی۔

یہ کہاں کا انصاف ہے اور کیسے انسانی حقوق کی پاسداری ہے اور جمہوری حکومت کا یہ کیسا غیر جمہوری رویہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے غریب عوام خصوصاً کچی آبادیوں کے مکینوں سے ان کے گھروں اور دکانوں کی چھتیں چھین کر پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنا نے کے دعویدار جہاں ایک طرف لاکھوں غریب لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کر رہے ہیں وہاں سرکاری فنڈ کھانے کے لیے آوارہ اور نشہ کے عادی افراد کے لیے شیلٹر ہوم بنا رہے ہیں ۔

بعد میں پتہ چلے گا کہ شیلٹر ہوم بنانے کی آڑ میں اہم حکومتی شخصیات نے اربوں روپے کما نے کی خاطر یہ سارا ڈرامہ رچایا ہوا ہے۔المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے باپ دادا کے وقت سے ذاتی گھروں سے ابھی بھی محروم ہیں جبکہ جعلی اور دو نمبر کلیم بھرنے والے اور ان کی نسلیں اربوں کی جائیدادوں کے وارث ہیں۔

بورڈ آف ریونیو کے ریکار ڈ میں آج بھی ردوبدل چمک کے زورپر جاری و ساری ہے کہ جس سے آج بھی بعض عناصر عدالتوں کو جعلی ریکارڈ کے ذریعے دھوکہ دے کر فیصلہ اپنے حق میں کر ا کر کروڑوں، اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں حکومت سے ہتھیا نے میں مصروفِ کار دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ بے گھر افراد کے لیے پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ 

اگر ہے تو کچی آبادیوں میں ۔ ہاں البتہ بلیک منی ، ڈکیتی، چوری ، فراڈ، منشیات اور اسلحہ فروخت کر کے حاصل کر دہ آمدن سے جتنی مرضی آپ جائیداد بنا سکتے ہیں اور پھر ٹیکس دے کر اس ملک کے معزز شہری کہلا سکتے ہیں۔با اثر لوگ اگر پہاڑ کی چوٹی پر بھی قبضہ کر لیں تو ہمارے ادارے انہیں ریگولرائز کر دیتے ہیں۔جبکہ غریب اور بے گھر افراد اگر سڑک کنارے جھونپڑی بھی بنا لیں تو وہ ناجائز تجاوزات میں شمار ہوتی ہے۔

قارئین محترم، اگر مزید پانچ سال تک ملک کا سرمایہ لوٹنے والوں کو صرف جیلوں میں بند کرنا مقصود رہا اور وطنِ عزیز کا لوٹا ہوا سرمایہ یورپ اور امریکہ سے واپس نہ لایا گیا تو پاکستان کی عوام کو میڈیا پر صرف عدالتی کاروائیوں کی خبریں دیکھنا اور سننا ملتی رہیں گی۔کیا اس سے ملک اور قوم کی تقدیر سنور سکے گی۔ اگر تجاوزات کی آڑ میں وطنِ عزیز میں یہی تباہی اور بربادی کا سلسہ جاری رہا تو پھر کیا دہشت گرد وں کو یا کسی دشمن ملک کو پاکستان پر ڈرون حملے یا میزائل حملے کرنے کی ضرورت باقی رہے گی؟۔ 

مِلتِ زود فراموش! ترے راہ نما
اپنے دعووں کے مطابق کبھی بہتر نکلے
کچھ کہے خواہ کوئی ، اپنا تو یہ تجربہ ہے
جو نئے آئے وہ پہلے سے بھی بد تر نکلے
(نوشتہ دیوار)