|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2019

کوئٹہ: وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا ہے کہ سینیٹ کے ضمنی انتخاب کے نتیجے کے بعد بلوچستان حکومت اور بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات کی افواہیں دم توڑ گئی ہیں اور واضح جواب سامنے آگیا ہے۔ ہمارا نیم گیم نہ صرف پورا بلکہ متحد بھی ہے۔ بعض لوگوں کی پارٹی میں وہ سیاسی حیثیت اور شراکت نہیں جتنے ان کے تحفظات ہیں۔

یہ بات انہوں نے سینیٹ کے ضمنی انتخاب کے نتائج کے اعلان کے بعد بلوچستان اسمبلی میں اپنے چیمبر میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر نومنتخب سینیٹر منظور کاکڑ ، بلوچستان عوامی پارٹی اور مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے رہنماء ، صوبائی وزراء اور ارکان اسمبلی بھی مجود تھے۔ 

وزیراعلیٰ جام کمال خان نے سینیٹ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی کا سہرا بی اے پی کی قیادت اور اتحادی جماعتوں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی کو دیا اور تعاون پر ان سب کا شکریہ ادا کیا۔ تحریک انصاف کی قیادت وزیراعظم عمران خان اور صوبائی قیادت نے ہمارے ساتھ بھر پور تعاون کیا جس پر ہم ان کے مشکور ہیں۔ 

وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے محنت کی اور سیاسی طریقہ کار کے ساتھ کام کیا۔ انہوں نے نومنتخب سینیٹر منظور احمد کاکڑ کو بھی مبارکباد پیش کی اور کہا کہ ان کی پارٹی میں بڑی محنت ہے۔

جام کمال کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ ایوان بالا میں بلوچستان عوامی پارٹی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اچھی تعداد میں موجودگی کے نتیجے میں بہت کردار ادا کرے گی۔ توقع سے ایک ووٹ کم ملنے اور پارٹی میں اختلافات سے متعلق سوال پر وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ہمارا نمبر گیم پورا ہے۔ 

سردار یار محمد رند بلوچستان سے باہر تھے جبکہ بی این پی عوامی کے سید احسان شاہ جو حکومت سازی میں ہمارے ساتھ تھے مگر ان کی اپنی پارٹی کے حوالے سے ماضی کی اپنی کمٹمنڈ تھی۔ ایک ووٹ اپنے انداز میں خارج ہوا ہے مگر اس کے باوجود ہمارا نمبر نہ صرف پورا بلکہ متحد اور قائم بھی ہے۔ 

سینیٹ کے اس انتخابی نتائج سے تین چار دنوں سے زیر گردش بہت ساری باتوں کا واضح جواب بھی سامنے آگیا ہے۔ اب وہ چیزیں شاید لوگوں کی ذہن میں نہیں ہوں گی جو شاید محسوس کررہے تھے کہ نمبر گیم میں فرق آئے گا۔

پارٹی میں اختلافات پیدا کرنے والوں سے متعلق اپنے ایک پرانے بیان کی وضاحت دیتے ہوئے جام کمال کا کہنا تھا کہ سیاسی عمل کا ایک طریقہ ہے، بیانات پارٹی کی قیادت ،بہت سارے پارٹی ممبران بھی دیتے ہیں اور ہم بھی دیتے ہیں۔ میرے اس بیان میں مجموعی طور پر پارٹی کی گورننس، کامیابی، پوزیشن اور مستقبل کے منصوبوں سے متعلق ایک تجزیہ آیا ہے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ہر پارٹی میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے تحفظات کچھ زیادہ ہوتے ہیں بہت سارے ایسے ہوتے ہیں جن کے تحفظات یقیناًدرست بھی ہوتے ہیں اور بہت سارے تحفظات ایسے لوگوں کے بھی ہوتے ہیں جن کی کارکردگی، سیاسی حیثیت اور شراکت پارٹی میں اس انداز میں نہیں ہوتی لیکن اخبار کی سرخی بن بھی جاتے ہیں اور سیاسی حوالے سے بھی سامنے آجاتے ہیں۔ 

الحمداللہ بلوچستان عوامی پارٹی ایک ضلع کی پارٹی نہیں۔ لسبیلہ سے لیکر مکران ،ڑوب سے لیکر کوئٹہ اور نصیرآباد ڈویڑن تک پارٹی ہے۔ بہت بڑی تعداد میں ہمارے پارٹی کارکن ہیں۔بڑی تعداد میں ایسے کارکن ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر اپنا تجزیہ اور بیانات نہیں دیتے شاید اس وجہ سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئی کہ بلوچستان عوامی پارٹی اختلافات کا شکار ہے مگر ہم چھ مہینوں میں بہت ساری چیزوں میں سرخرو ہوئے ہیں۔ بی اے پی نہ صرف قائم بلکہ دن بہ دن مضبوط ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت بنے ہوئے ابھی صرف چھ ہی مہینے ہوئے ہیں ہم ایک نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں نظم و ضبط اور مینجمنٹ ہو۔ پارٹی آہستہ آہستہ استحکام کی طرف جارہی ہیں۔ وزیر اطلاعات ظہور بلیدی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ پر تنقیدی ٹویٹ سے متعلق سوال پر بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی ایسی چیزیں اخبار یا میڈیا میں آجاتی ہیں میرے بارے میں بھی آئی تھیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی ایک بڑی پارٹی ہے جو بہت بڑا دل بھی رکھتی ہے۔

ہم اپنے ورکرز اور پارٹی کے لوگوں کے خیالات کو ہر لحاظ سے سنتے بھی ہیں اور اس کو ایڈجسٹ بھی کرتے ہیں۔ بی اے پی اب ایک سسٹم کی طرف جارہی ہے۔ کچھ چیزیں ٹویٹ کے طور پر بھی آجاتی ہیں اور کچھ چیزیں ظاہر بھی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہر پارٹی میں یہ چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں اس میں کوئی ایسی ایمرجنسی کی بات نہیں اسے ہم بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کے باوجود آج کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ بی اے پی اپنے لحاظ سے توازن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ 

ایک سوال پر جام کمال کا کہنا تھا کہ سینیٹ کے اگلے انتخابات سے متعلق بات کرنا قبل از وقت ہوگا تاہم حالیہ انتخابات میں ہم جس طرح بی اے پی اور اتحادی جماعتیں مشاورت کے ساتھ آگے بڑھی ہیں امید ہے کہ آئندہ انتخابات ہونیوالے تمام انتخابات میں بھی ہم بہتر انداز میں صلاح و مشورے سے آگے بڑھیں گے۔