|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2019

کراچی : بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکومت کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ساتھ چھوڑنے پر غور شروع کر دیا ہے اس ضمن میں پارٹی قیادت نے ایک کمیٹی بھی بنادی ہے جو حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرے گی اوراپنے مطالبات پیش کرے گی۔

مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں اپوزیشن کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کو کراچی میں بی این پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، جس کی سربراہی سردار اختر جان مینگل نے کی۔ 

سی ای سی اجلاس میں پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ 6 نکات کیا جائزہ لیا گیااور پھراجلاس میں تاحال حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے بی این پی نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو مطالبات حکومت کو پیش کرے گی جس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سر دار اختر جان مینگل نے کہا کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کے اجلاس میں مختلف امور زیر بحث آئے اور یہ شیڈول اجلاس تھا۔

اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال زیر بحث آئی۔انہوں نے کہا کہ اگست 2018میں تحریک انصاف کے ساتھ ایم او یو پر دستخط ہوئے کچھ نکات دیرینہ اور پیچیدہ مسائل حل کرنے پر اتفاق ہوا۔ جس کا سب کو معلوم ہے۔وقتاََ فوقتاََیادھانی اور اجلاس بھی ہوئے نتیجہ جو نکلا وہ سینٹرل کمیٹی کے سامنے رکھ کر جائزہ لیا اور رائے حاصل کی۔انہوں نے کہا کہ حکومت گرانے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہمارے مطالبات مان لیے گئے تو ہم حکومت کے ساتھ چلیں گے۔ 

وفاقی حکومت سے ہمارے 6 نکات پر صدارتی الیکشن اور صوبائی انتخابات پر 9 نکات پر بات چیت ہوئی تاہم ہماری جو بات ہوئی تھی اس پر ہمارے تحفظات ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ ہم آزاد بنچوں پر بیٹھے ہیں جو اچھی بات ہوگی ہم ساتھ دیں گے، وفاق سے جو ہماری بات ہوئی تھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تاہم ہر غلط کام پر مخالفت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور آصف زرادری کی ملاقاتیں اچھی بات ہے، ایسی ملاقاتوں سے سیاسی استحکام ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ڈیمو گرافی جسے افغانیوں کو بسا کر خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور سی پیک پر بھی نظر انداز کرنے پر بھی بات ہوئی۔ زمین اور وسائل نہ ملنے پر غور کیا گیا مگر آج مایوسی اور ناراضگیاں بھی ہوئیں۔ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے گی۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بات پر تشویش ہے۔مکمل صوبائی خود مختاری چاہتے ہیں۔

عدلیہ کی مکمل آزادی خود مختاری چاہتے ہیں 6 نکات پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی لیکن حکومت کو ایک سال دیا ہے۔مسنگ پرسز کی بازیابی میں تیزی آئی تو بہتر ہوگی۔ہم پوائنٹ اسکورنگ نہیں 6 نکات پر عملدر آمد چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم حکومت اتحادی نہیں سپورٹر ہیں۔سردار اختر مینگل کہا کہ مجھے پاگل کتے نے نہیں کاٹا جو وزیر اعظم بننے کا سوچوں اکثریتی مینڈیٹ والوں کا حشر دیکھ چکا ہوں ہم حکومت کے اتحادی نہیں صرف حمایتی ہیں ۔

اگر اتحادی ہوتے تو سینیٹ میں ہمارے امیدوار کو ووٹ ملتا۔جمہوری بالادستی چاہتے ہیں جو مثبت قدم اٹھائے گا اس کا ساتھ دیں گے۔ منتخب جمہوری رہنماوں کی حق تلفی دیکھی تو پروڈکشن آرڈر پر مثبت انداز میں آواز اٹھائی اپوزیشن کے اجلاس میں اس لیے بیٹھے کیونکہ ہم حکومت کے اتحادی نہیں ہیں۔حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں مگر ان کو ایک سال دیا ہے ساڑھے تین سو مسنگ پرسن مل چکے اب بھی ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔