|

وقتِ اشاعت :   January 17 – 2019

کاریز آبپاشی نظام نہ صرف صدیوں سے اس علاقے کے لوگوں کو پینے اورکاشت کاری لیے برابر ی کی بنیاد پر پانی فراہم کر رہا تھابلکہ بہترین انسانی اقدار کو قائم رکھنے کاسبب بھی بنا ہوا تھا ،کاریز علاقے کے تمام لوگوں کی سانجی ملکیت ہوتی تھیں اس لیے تمام لوگ مل کر اس کی صفائی اور مرمت کی ذمہ داری نبھاتے تھے یوں سمجھیں کہ کاریز نظا آبپاشی نے انسانوں کے درمیان محبتوں ، ہمدردی اور برابر ی کے رشتوں کو قائم رکھا ہوا تھا۔ 

اجتماعی ترقی پر انفرادی ترقی کی پروان چڑھتی سوچ اس قدرتی نظام کی تباہی کا سبب بنی۔360 کاریزوں کاپانی صدیوں سے علاقے کے لوگوں کی معشیت اور زندگی کی ضرورتوں کو پورا کر رہا تھایہی لوگ آج پینے کے پانی کی تلاش میں پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی میں کاریزوں اور باغات کی سرزمین کے نام سے مشہور مستونگ شہر کوئٹہ سے 54کلومیٹر دور جنوب کی طرف کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر واقعہ ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے یہ علاقہ کوئٹہ کو کراچی، تفتان اور ایران سے ملاتا ہے ۔

سطح سمندرسے (5583 فٹ) کی اونچائی پر واقع یہ شہر ہے ضلع اور تحصیل مستونگ کا انتظامی مرکز اورانتظامی طور پر دو یونین کونسلوں میں تقسیم ہے. 1 99 1 سے پہلے، مستونگ ضلع قلات کا حصہ تھا. تاہم، انتظامی مقاصد کے لئے، 1991 میں اسے قلات سے علیحدہ کرکے ضلع کا درجہ دیا گیا، کاریزکا نظام آبپاشی پاکستان کا قدیم ذریعہ آب رسانی ہے جس میں کشش ثقل کا استعمال ہوتا ہے۔

حکومت بلوچستان نے اپنے انتخابی منشور میں صوبے میں پانی کی کمی اور زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کو بہتر بنانے کے ساتھ قدیم نظام آبپاشی کاریزکو فعال بنانے کے لیے منصوبے شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔حکومت میں آنے کے بعد اپنی 100روزہ کارکردگی رپورٹ میں بھی حکومت کے وزیرپبلک ہلتھ نور محمد دمڑ نے دعویٰ کیا ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے موجودہ حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت جاری منصوبہ جات کی ترجیحی بنیادوں پر تکمیل کے لیے فنڈزجاری کیے ہیں ۔

حکومت نے صوبے کا وسیع پیمانے پر سروے اور پی سی IIبناکر وفاق سے رجوع کیا تھا اور اس سروے اور پی سی IIکا ریکارڈ صوبائی محکمہ ایریگیشن کے پاس موجود ہے۔ اور اسی طرح صوبے کی سطح پر مزید 18تا 20بڑے ڈیموں کی سروے اور فزیبلٹی رپورٹ اکتوبر 2019تک مکمل ہونی ہے اور اس کام کیلئے ہماری صوبائی حکومت نے 32کروڑ روپے کی رقم منظور اورجاری کی تھی۔ 

اور ساتھ ہی مانگی ڈیم پر کام جاری رکھ کر ضلع کوئٹہ کے اطراف میں چھوٹے بڑے 200چیک ڈیمز کی تعمیر کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں منظوری دی گئی اور اس طرح وفاق کی جانب سے 200ڈیمز کی تکمیل آخری مراحل میں ہیں جبکہ فیڈرل پی ایس ڈی پی 3ارب روپے کی لاگت سے اور صوبائی پی ایس ڈی پی میں 3ارب روپے کی لاگت سے ڈیموں پر کام جاری ہے ۔

لیکن صوبے کا اوسطاً سالانہ سیلابی پانی جس کی تعداد 12.00ملین( ایک کروڑ بیس لاکھ ایکڑ فٹ سے ) زیادہ پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے کم از کم فوری طور پر5کھرب روپے ضرورت ہے اور اس طرح کے منصوبوں پر عملدرآمدسے ہی صوبے کے پانی کے بحران اور خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔

پانی کی حفاظت کے لیے تمام اضلاع کے پانی کے ذخائراور ٹیوب ویلوں کے نقشہ جات تیار کیے جارہے ہیں، زمین پانی کے غیر قانونی اخراج کوروکنے اور درست استعمال کے بارے میں عوام میں شعور و اگاہی کے فروغ کے لیے صوبائی سطح پرسیمیناروں کا انعقاد کیا جائے گا ۔ موجودہ حکومت کے انتخابی وعدوں اور حکومت میںآنے کے بعد کے دعوؤں کے باوجودباغات اور کاریزوں کے شہر مستونگ کے لوگوں کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے ۔ 

یواین ڈی پی پاکستان کے سربراہ اورعالمی ماحولیاتی ادارے آئی یو سی این بلوچستان کے سابق پروجیکٹ منیجر زبرست خان بنگش کا کہناتھاکہ ہمارے ادارے نے ایک سروے کے ذریعے بلوچستان کی 3500 کاریزوں کی حالت کو جانچنے کی کوشش کی گئی تھی سروے میں 380 کاریزوں کی نشاندہی ہوئی جن کی سالانہ صفائی اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں پانی کا بہاو بہت کم ہو چکا تھا۔

سروے کے بعد ہمارے ادارے نے کاریزوں کی بحالی کاکام مقامی لوگوں کے تعاون سے شروع کیا ۔جدت کی طرف جانے کی خواہش کی پیروی کرنے والے لوگوں نے جب ٹیوب ویل لگانا شروع کیے تو پھر انفرادی مفاد کی سوچ نے اجتماعی نظام آبپاشی کاریزوں کی طرف سے لوگوں کی توجہ کم ہوگئی ہم نے یہ دیکھا کہ ٹیوب ویل تو دیر پاہ (سسٹین ایبل ) نظام نہیں ہے توکاریز وں کی بحالی کے پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔

ہماری ٹیم کے لوگوں نے ایک نیا طریقہ نکالا تھا کہ جہاں سے پانی نکلتا ہے وہاں سے لے کرڈے لائٹ پوائنٹ تک پلاسٹک کا پائپ ڈالا تھا یہ پائپ اوپر سے کور اور نچلی طرف سے سوراخ والاتھا تاکہ نیچے سے پانی آتا رہے اور اوپر سے کاریز میں گرنے والی مٹی اور دیگر چیزوں سے محفوظ رہ سکیںِ یہ پائپ ہم نے خاص طور پر تحقیق کے بعد اسپشل آرڈر پر بنوائے تھے،پائپ ڈالنے سے پانی کاریز کے پانی کے بہاؤ کئی گنا اضافہ ہوا۔ 

انہی علاقوں میں کم پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں سبزیوں اور پھلوں کی نرسری قائم کی گئی علاقے کے لوگوں کو کاریزکے نظام آبپاشی کے فائدوں کے بارے میں آگاہی دی گئی اور کم پانی کے استعمال والی سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کی تربیت دی گئی۔ کاریزوں کی بندش سے 14 سو ایکڑ کاشت ہونے والی زمین کم ہو140 ایکڑ ہوچکی تھی کاریز کی بحالی سے وہاں کی پیداوار پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی ۔

اس وقت کی حکومت کی ہدایت پر بلوچستان کے تمام متعلقہ محکموں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا تھا ۔ہماری بحال کردہ کاریزوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آج ہزاروں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔آئی یوسی این نے مستونگ پشین قلعہ سیف اللہ نوشکی میں پانی کے درست استعمال بارے اپنی تجاویز حکومت کو پیش کی تھی مگر افسوس آنے والی حکومتوں نے ہماری تجاویز کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر سبسڈی دے کر ٹیوب ویل لگانے کی حوصلہ افزائی کی جس کے خطرنات نتائج کا آج مستونگ کے لوگوں کو سامنا ہے ۔

ایگزیگٹیو افسر محکمہ ایر گیشن انجینئر سروربنگلزئی کا کہنا تھا کہ زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کی بڑی وجوہات میں بارشوں کا نہ ہونا،پانی کا درست استعمال نہ ہونا اور پابندی کے باوجود ٹیوب ویلوں کی تنصیب کا کام جاری رہنا ہے ،پانی کی شدید کمی کے باوجود ابھی بھی مستونگ کے زمیندار پیازاور سیب کا کاشت کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

محکمہِ ایرگیشن زیر زمین پانی کی سطح کوبلند کرنے کے لیے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کے تحت ان علاقوں کا سروے کیا جارہا ہے جہاں پانی جمع ہونے کے امکانات موجود ہیں وہاں ڈیلے ایکشن ڈیم تعمیر کیے جائے گے ، سروے کا کام آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔

عنقریب سروے رپورٹ پروجیکٹ ڈائریکٹر کو جمع کر دی جائے گی جس کے بعد مستونگ کے مختلف علاقوں میں 50چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے کی منظوری ہونے کے بعد تعمیراتی کام بلا تاخیر شروع ہوجائے گا ۔

محکمہ جنگلات کے شعبہ کنزرویشن مستونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سراج احمدکاکہنا تھا کہ 1958 سے علاقے میں ریگ بندی کا کا م جاری ہے ریلوے لائن کے دونوں جانب ریگ بندی کی جاتی ہے بارشوں کے دنوں میں کم پانی اور موسم کی سختیوں کو برداشت کرنے والے پودے لگائے جاتے ہیں ۔

11ہزارا یکڑ رقبہ ہمارے زیر انتظام ہے۔سراوان واٹر پارٹنرشپ کے سرپرست اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی لیبر سیکرٹری منظور بلوچ کا کہنا تھا کہ ہماری تنظیم علاقے میں پانی کی اہمیت د رست استعمال اور کم پانی سے کاشت ہونے والی فصلوں،سبزیوں اور پھلوں کے بارے میں شعور و آگاہی کے فروغ کے لیے سرگرم ہے ،مستونگ میں تیس برس قبل تک 360کاریزیں موجود تھی لوگ صدیوں سے آجتماعی طور پر ان سے مستفید ہوتے آ رہے تھے ،مگر اس وقت 2 کاریزوں کے صرف نشان باقی بچے ہیں ۔ 

مستونگ میں جب تک کاریز نظام آبپاشی رائج تھا علاقے کی 80 فیصد آبادی کا ذریعہ روزگار زراعت ہی تھا ۔اس قدرتی نظام آبپاشی کی تباہی کے بعد آج آبادی کا صرف 5 فیصد لوگ زراعت کے شعبہ سے وابستہ رہ گئے ہیں ان کا گزر بسر مشکل ہو چکا ہے۔

کاریزوں کی تباہی کا سبب بننے والا ٹیوب ویل آبپاشی نظام بھی زیر زمین پانی کی گرتی ہوئی سطح کے باعث پانی کی مطلوبہ ضروت کو پورا نہیں کرپارہا۔ٹیوب ویلوں کی تنصیب کے پانچ برس تک مستونگ میں 120 فٹ کی گہرائی سے پانی نکل آتا تھا مگر اب پانی کی سطح 600 فٹ تک گر چکی ہے ۔

نیئے ٹیوب ویل کی تنصیب کے لیے آج کل 1000 فٹ گہرائی تک بورکرناپڑتا ہے،طویل عرصے سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار ٹیوب ویل خشک ہو رہے ہیں اور ہر سال پانی کی سطح 50 فٹ تک گر رہی ہے، پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے مستقبل قریب میں باغوں کے شہر مستونگ کے لوگوں کو پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہو گا۔ اور لوگوں کو اپنے آبائی علاقے سے ہجرت کرنا پڑے گی ۔

خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے صوبائی حکومتوں نے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے ۔ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پانی کوآئندہ نسلوں کے لیے بچایا جائے ۔ جدیدتحقیق کی حامل کم وقت اور کم پانی کے استعمال سے زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کرنے کے لیے زمینداروں کوشعور دیا جائے ۔

اس کے لیے ہم سب کا مطالبہ ہے کہ نیے ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر لگائی گئی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے ۔علاقے کے لوگ اس حوالے سے مکمل تعاون کرنے کوتیار ہیں،علاقے کے زمیندار اور جماعت اسلامی کے ضلعی امیر مولانا خلیل الرحمان شاہوانی کا کہنا تھا کہ پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے عوام اور حکومتی اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

ٹیوب ویلوں کی تنصیب کی اجازت دینے والی کمیٹی کو فعال کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ کی نعمت کے درست استعمال کی آگاہی کو ہنگامی بنیادوں پر خصوصی مہم کے ذریعے فروغ دیاجائے،علمائے کرام کوجمعہ اور عید کے خطبوں میں پانی کے درست استعمال بارے آگاہی دینا ہو گی۔

نیشنل پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری سجاد احمد دہوار کاکہنا تھا کہ مستونگ کی آبادی کو مستقبل قریب میں نقل مکانی سے بچانے کے لیے محکمہ زراعت ،جنگلات،ماحولیات ،امور حیوانات ،پی ڈی ایم اے کے باہمی رابطوں کو بڑھانے کے لئے مشترکہ فورم بنایا جائے ، نئے ٹیوب ویلوں کی تنصیب کو سختی سے روکنے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کی جائے۔

علاقے کی سماجی شخصیت ہما رئیسانی کا کہنا تھا کہ ٹیوب ویل ایک فرد کی ملکیت ہوتاہے جس سے دو یا تین خاندان مستفید ہوتے ہیں جب کہ ایک کاریز سے 500سے1000 لوگ مستفید ہوتے تھے اس اجتماعی نظام کی بحالی کے لیے حکومت کوہنگامی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔ 

کاریزوں کی بحالی سے خشک سالی جیسی آفت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ، باشعور قومیں ایسی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے سے منصوبہ بندی اور اس پر عملدرآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر تی ہیں جس طرح خشک سالی کے مقابلے کیلئے پہلے سے پانی کے ذخیروں میں اضافہ ضروری تھا۔ لیکن بدقسمتی سے سارے ملک میں 100دن کے پانی کا ذخیرہ نہیں خصوصاً بلوچستان کے سالانہ 12.00ملین ایکٹر فٹ پانی کو ذخیرہ کرنے اور محفوظ کرنے پر ماضی میں توجہ دی جاتی تو آج موجودہ مشکل صورتحال کا سامنا نہ ہوتا۔

سپریم کورٹ نے انڈسٹری کی جانب سے زیر زمین پانی کے استعمال سے متعلق فیصلہ جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ منرل واٹر اور مشروبات کی کمپنیوں سمیت ٹیکسٹائل، گارمنٹس، شوگر ملز، پٹرولیم ریفائرنیز اور دیگر انڈسٹریز سے بھی زیر زمین پانی کے استعمال پر ایک روپیہ فی لیٹر قیمت وصول کی جائے۔

عدالتی فیصلے پر من و عن تعمیل کے لئے وفاقی و صوبائی حکومتوں، ایف بی آر اور متعلقہ اداروں کو کہا گیا ہے فیصلے میں تنبہہ کی گئی ہے کہ پانی کی قیمت کا بوجھ صارفین پر منتقل نہیں کیا جائے گا، فیصلے میں منرل واٹر اور مشروبات کی کمپنیوں کو کارپوریٹ ذمہ داری کے تحت شجر کاری کی سر گرمیوں کو فروغ دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ کمپنیاں سالانہ 10 ہزار درخت لگائیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ زیر زمین پانی کی قیمت کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کو دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر میں لگایا جائے، اور وصول ہونے والی رقم کو الگ اکاؤنٹ میں رکھا جائے گا۔ جب کہ فیصلے کی روشنی میں صوبائی حکومتوں کو پانی کی قیمت کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔