|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2019

کوئٹہ: کوئٹہ میں پینے کے صاف پانی اور سیوریج کے منصوبے میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی سے زائد گزرنے اور نو ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود عوامی فلاح کا یہ بڑا منصوبہ مالیاتی اصولوں اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وجہ سے ناکامی سے دو چار ہوا۔

رپورٹ میں پراجیکٹ کا ٹھیکہ غیر شفاف انداز میں پسند اور ناپسند کی بنیاد دینے کا انکشاف ہوا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تعمیراتی کمپنیوں نے شرائط کو پورا نہیں کیااور منصوبے کو تباہی کی جانب دھکیلا۔ منصوبے کی لاگت تقریباً سات ارب روپے سے بڑھ کر سترہ ارب روپے ہوگئی۔ نو ارب روپے خرچ کرلئے گئے مگر منصوبے کے بیشتر اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے۔

پندرہ سو کلومیٹر طویل پائپ لائنیں بچھانے کا دعویٰ کیا گیا مگر کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔ اڑسٹھ کروڑ خرچ کرنے کے باوجود پچیس میں سے بائیس ٹینکیوں کی تعمیر کا کام ہی مکمل نہیں ہوا۔ایک ارب چونسٹھ کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی مگر سیوریج کے گندے پانی کو قابل استعمال نہ بنایا جاسکا۔ بارہ کروڑ روپے سے خریدی گئی زمین کا قبضہ بھی حاصل نہیں کیا گیا۔

پراجیکٹ کی سات گاڑیاں اور دو موٹرسائیکلیں بھی چوری یا غائب ہیں۔رپورٹ کے مطابقکوئٹہ واٹر سپلائی اینڈ انوائرمنٹل پراجیکٹ مالی سال 2003۔2002 میں بنایا گیا۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد قلت آب کا سامنا کرنے والے صوبائی دار الحکومت کے رہائشیوں کو پینے کا پانی فراہم کرناتھا۔حفظان صحت کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کے نظام کو درست کرکے ماحول میں بہتری لانا بھی اس منصوبے کا اہم مقصد تھا۔

اس سلسلے میں ٹیوب ویلز کی تنصیب ، نئی پائپ لائنیں بچھا نا،ڈیمز اور چیک ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ پانی ذخیرہ کیلئے بڑی ٹینکیاں بنائی جانی تھیں۔ گندے پانی کی نئی نالیوں کی تعمیر اور اس پانی کو قابل استعمال بنانے کیلئے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس بنانا بھی منصوبے کا حصہ تھا۔ آڈٹ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ منصوبے پر نو ارب روپے سے زائد خرچ کئے گئے مگر اس کے مقاصد میں سے بیشتر کو حاصل نہیں کیا جاسکا۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی اصولوں کے مطابق پیسے کے درست استعمال، معیار اور بہتر خدمات کے حصول کیلئیمنصوبے کا ٹھیکہ فراہم کرنے کیلئے کھلی مسابقتی بولی لگائی جانی چاہیے مگر اس منصوے کا ٹھیکہ ٹھیکے اور کھلی مسابقتی بولی کے ذریعے نہیں دیا گیا۔

یہی بنیادی اصولوں کی بڑی خلاف ورزی ہے۔ آبی ماہرین نے اپنی مختلف تحقیق میں یہ قرار دیا ہے کہ پینے کے پانی کیلئے زیر زمین پانی پر انحصار کرنے کی بجائے زمین کی سطح پر موجود پانی استعمال کرنا چاہیے۔زیر زمین پانی پر انحصار کی وجہ سے پہلے ہی پانی کی سطح خطرناک حد تک گر گئی ہے۔ منصوبے میں پانی کی کمی کے مسئلے کے پیش نظر سطح کے اوپر اور نیچے دونوں طرح کے پانی کو استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا۔

مگر ماہرین کی رپورٹس کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف آسان یعنی ٹیوب ویلوں کی کھدائی کا آپشن استعمال کیا گیا۔اسی طرح زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کیلئے ڈیلے ایکشن اور ری چارج ڈیمز بنانا بھی منصوبے کا حصہ تھا مگر صرف ایک ڈیلے ایکشن ڈیم بنایا گیا۔ 

منصوبے کے دوران 68 کروڑ 10 لاکھ روپے پانی کو زمین اور بلندی پر ذخیرہ کرنے کیلئے ٹینکیوں وغیرہ کی تعمیر پر لگائے گئے مگر 25 میں سے صرف 3 ٹینکیوں یا ذخیرہ کرنے کے مراکز کا تعمیراتی کام مکمل کیا گیا۔مکمل کی گئیں تینوں ٹینکیاں بھی فعال نہیں اس طرح مطلوبہ اہداف حاصل کئے بغیر منصوبے کی ایک بڑی رقم خرچ کی گئی۔

منصوبے میں ایک ارب 64 کروڑ 31 لاکھ روپے سیوریج کے گندے پانی کو قابل استعمال بنانے پر خرچ کیا گیا مگر اس کے باوجود تاحال گندا پانی قابل استعمال بنائے بغیر نالیوں میں بہہ رہا ہے۔ یہ پراجیکٹ گندے پانی کو قابل استعمال بنانے کے منصوبہ بندی اور ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر میں بھی ناکام رہا۔ ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا گیا مگر وہ بھی فعلا نہیں جبکہ دوسرا بڑا ٹریٹمنٹ پلانٹ اور اس کی مشینری خریدی گئی مگر استعمال کئے بغیر اسٹور میں کنٹینرز میں موجود ہیں۔ 

پرانیاور زنگ آلود پائپ لائن پانی کی قلت اور ضیاع کی وجوہات میں سے ہیں۔پراجیکٹ کے تحت پرانے پائپ لائنز کو تبدیل کرکے نئے پائپ لائن بچھائے جانے تھے۔پراجیکٹ کے تحت 1505 کلومیٹر طویل پائپ لائنیں بچھانے کا دعویٰ کیا گیامگر اس دعوے کے حق میں ریکارڈ دستیاب نہیں۔ 

پائپ لائنیں کہاں بچھائی گئیں اس کینقشے پراجیکٹ کے منتظمین کے پاس موجود نہیں لہٰذا اس بات پریقین نہیں کیا جاسکتا کہ پائپ لائنز واقعی بچھائی گئی ہیں۔ منصوبے کے مختلف حصوں کیلئے 6 لاکھ 27 ہزار 657 مربع فٹ زمین 12 کروڑ روپے میں خریدی گئی مگر اس کا قبضہ حاصل نہیں کیا گیا۔

منصوبے کی سات گاڑیاں اور دو موٹرسائیکلیں بھی چوری یا غائب ہوئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منصوبے کے منتظمین سامان اور اثاثوں کی باقاعدہ نگہداشت میں ناکام رہے اور اس نقصان پر کوئی باقاعدہ ایکشن بھی نہیں لیا گیا۔ آڈیٹرز کی جانب سے معاملے کی نشاندہی کے بعد منتظمین نے اس کی تحقیقات شروع کیں۔ رپورٹ کے مطابق 1997ء کے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے۔

کہ منصوبے پر کام شروع کرنے سے قبل اس کے ماحول پر اثرات کو جانچناچاہیے مگر اس منصوبے کے منتظمین نے اس کی بھی پاسداری نہیں کی۔آڈٹ رپورٹ میں منصوبے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا گیا ہے۔

کہ قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے کوئٹہ واٹر سپلائی اینڈ انوائرمنٹ امپرومنٹ پراجیکٹ کا 7ارب 96 کروڑ50 لاکھ روپے کا پی سی ون اگست 2003ء میں منظور کیا تھا جس میں تین ارب 28 کروڑ روپے واٹر سپلائی، دو ارب روپے نکاسی آب کے نظام کیلئے ، ایک ارب 74 کروڑ روپے دو ڈیمز کی تعمیر کیلئے مختص کئے گئے تھے۔ پراجیکٹ کو دو حصوں پیکیج اے اور پیکیج بی میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پیکیج اے کے تحت شہر کے پہاڑی علاقوں میں ٹیوب ویلز کی کھدائی کرکے پانی کے نئے ذخائرکی تلاش کرنا ، پہلے سے موجود پانی کے ذخائر اور ٹیوب ویلز کو استعمال میں لانا ،اور پہلے سے موجود پینے کے پانی کے منصوبوں کو بہتر بنانا تھا۔ 

برساتی نالوں کی بحالی ،استعمال شدہ پانی کو دوبارہ زراعت اور باغبانی کے لئے قابل استعمال بنانا اور زمین کی سطح اور زیر زمین موجود پانی کے ذخائر کی کیلئے بی واسا کے تحت ایک باقاعدہ پروگرام تشکیل دینا بھی پیکیج اے کا حصہ تھا۔ پیکیج بی کا مقصد کوئٹہ کو مانگی اور ہلک ڈیم سے روزانہ ایک کروڑ سات لاکھ گیلن پانی فراہم کرنا تھا۔ 

پراجیکٹ کے منصوبہ سازوں کے مطابق مزید دو کروڑ گیلن پانی روزانہ کوئٹہ کے پہاڑی علاقوں میں کھودے گئے ٹیوب ویلوں سے فراہم کیا جانا تھا۔ اسی طرح پہلے سے موجود ساٹھ ٹیوب ویلز کو بحال کرکے اس کے ذریعے 60 لاکھ گیلن پانی مزید فراہم کیا جانا تھا۔

اس طرح کوئٹہ کے شہریوں کو آٹھ گیلن سے بڑھا کر بیس گیلن فی کس پانی روزانہ فراہم کرکے 2025ء تک شہر کی پانی کی ضروریات کو پورا کیا جانا تھا۔بعد میں نیسپاک نیپی سی ون پر نظر ثانی کرکے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 7 ارب 96 کروڑ روپے سے بڑھاکر 17 ارب 90 کروڑ روپے اورپھر 10 ارب 15 کروڑ روپے لگایا گیا۔پراجیکٹ کو توسیع کرکے اس میں کوئٹہ چھاؤنی کے ساتھ ساتھ پائپ لائن سے ملحقہ علاقوں کو پانی کی فراہمی کو بھی منصوبے کا حصہ بنایاگیا۔

پہلے مرحلے میں کوئٹہ کو روزانہ تین کروڑ 83 لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جانا تھا۔ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی مرمت و بحالی ، میٹراور بلنگ کے علاوہ نگرانی کا مؤثر نظام تشکیل دینے ،پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاکر 65 لاکھ گیلن کرنا ،پانی کی مساوی تقسیم کا نظام بنانے اور سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے اور پانی کو قابل استعمال بنایاجانا تھا۔دوسرے مرحلے میں ہلک اور مانگی ڈیم کی تعمیر منصوبے کا حصہ تھے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ فرنٹیئر کور ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او)کو مانگی ڈیم جبکہ منصوبے کے باقی تمام کام 2004ء میں نیشنل کنسٹریکشن لمیٹڈکو اور اس کے بعد 2006ء میں چھ ضمنی ٹھیکے اوپن ٹینڈر کھلی مسابقتی بولی کی بجائے پسند و ناپسند کی بنیاد پر دیئے گئے۔ ایف ڈبلیو او نے مانگی ڈیم کی فزیبیلٹی رپورٹ بنائی جس کیلئے اسے 4کروڑ 99 لاکھ روپے ادا کئے گئے۔

اس طرح جون میں 2007ء میں ایف ڈبلیو او کے ساتھ کھلی مسابقتی بولی کی بجائے براہ راست ٹھیکے کا معاہدہ کیا گیا۔ اگست 2009ء میں ایف ڈبلیو او نے پرانی رقم پر کام کرنے سے انکار کردیا۔اسی طرح نیشنل کنسٹریکشن لمیٹڈبھی معاہدے کی شرائط پر پورا نہیں اترا۔تعمیراتی کام کی دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں۔ بعض چیزوں میں اضافی ادائیگیوں کے معاملے پر ٹھیکیدار مقدمہ بازی کا شکار ہوا جس کی وجہ سے ترقیاتی کام معطل رہا۔

خطیر رقم اور وقت ضائع ہونے کے باوجود منصوبہ کامیاب نہ ہوا۔ یہ اقتصادی و مالیاتی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔پراجیکٹ کا ٹھیکہ بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے دیا جاتا تو نہ صرف اخراجات کم کئے جاسکتے تھے بلکہ وقت کا ضیاع بھی نہ ہوتا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اتنے اہم پراجیکٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ز کی بار بار تبدیلی کی وجہ سے بھی منصوبہ مشکلات کا شکار ہوا۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔

کہ نیشنل کنسٹریکشن لمیٹڈ ٹھیکے کی شرائط پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا اور جان بوجھ کر اس منصوبے کو تباہی کی جانب دھکیلا۔منصوبے کے مختلف حصے کے مکمل ہونے میں ابھی آدھا کام باقی ہے اور محدود وسائل کی وجہ سے اس کی تکمیل کیلئے اب بھی بہت ساری مشکلات درپیش ہیں۔ پراجیکٹ کی تعمیراتی نقشے اور ضروری دستاویزات کی عدم موجودگی اور طریقہ کار کے مطابق منتقلی نہ ہونے کی وجہ سے بھی پراجیکٹ مشکلات کا شکار ہیں۔

اور خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود پراجیکٹ کے پھل کا اب تک انتظار کیا جارہا ہے۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹھیکہ کو غیر شفاف انداز دینے کا عوامی خزانے کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ مستقبل میں ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

رپورٹ میں ڈیمز کی تعمیر کی بجائے زیر زمین پانی کے نکالے جانے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پراجیکٹ کے تحت 305 مختلف ٹیوب ویلز لگائے گئے جن میں سے 270 کامیاب ہوئے۔

ابتداء میں زیر زمین پانی کی سطح کو اوپر لانے کیلئے ڈیلے ایکشن ڈیمز کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا مگر پی سی ون پر نظر ثانی کے بعد ایک ڈیلے ایکشن ڈیم کو چھو ڑکر باقی تمام ڈیمز کی تعمیر کا منصوبہ ختم کردیا گیا۔ پیکیج بی کے تحت مانگی ڈیم کی تعمیر بھی کی جانی تھی مگر ڈیم کے منصوبے کو صرف فزیبلٹی رپورٹ تک محدود رکھا گیا حالانکہ ماہرین کی رائے میں سب سے قابل عمل اس ڈیم کی تعمیر جنگی بنیادوں پر ہونی چاہیے تھی۔جبکہ پراجیکٹ میں زیر زمین پانی کے نکالنے پر انحصار کیا گیا جو انتہائی خطرناک ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹیوب ویلز کی تنصیب پر اس لیے توجہ دی گئی کہ یہ آسان اور ”کیش انسینٹیو ” کام ہیں۔ ٹیوب ویل کی کھدائی کا کام کیلئے زیادہ مہارت کی ضرورت نہیں پڑتی۔

یہ کام کوئی بھی لائن ڈیپارٹمنٹ کرسکتا ہے۔آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ مانگی ڈیم تعمیر کیا جاتا تو نہ صرف زیر زمین پانی پر دباؤ کم ہوتا بلکہ منصوبے کی لاگت میں بھی کمی آتی۔ کوئٹہ واٹر پراجیکٹ کی یہ ناقص کارکردگی تھی کہ نسبتاً کم لاگت کے اور قابل عمل منصوبے مانگی ڈیم اور ہلک ڈیم کے منصوبوں پر دینے کی بجائے پٹ فیڈرل کینال سے پانی کی فراہمی کے آپشن کو دیکھا گیا جو نہ صرف ایک انتہائی پیچیدہ ، کم قابل عمل اور خطیر لاگت والا منصوبہ ہے۔