|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2019

ایک حکومتی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چنیوٹ کی سرزمین قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے۔ یہاں پائے جانے والے لوہے کے ذخائر 125 سال تک ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہاں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں۔ اس موقع پر سابق وزیر اعظم نے تمام قوم کو مبارک باد بھی دی تھی۔

کتنے ستم کی بات ہے کہ یہ سب کچھ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ کیا سی پیک کا قصہ اس سے مختلف ہے؟۔ کیا یہ سب بھی چنیوٹ سے نکلنے والے سونے کی طرح کوئی چیز ہے۔ حاصل بزنجو چاہ بہار بندرگاہ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد جب وطن واپس آئے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں چاہ بہار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہماری بندرگاہ کا سائز چاہ بہار سے بہت بڑا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اگر ہم اس بار اتنا کام کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کی ہمیں ضرورت ہے تو پھر اس خطے میں جو کردار گوادر کا ہوگا وہ جبل علی بندرگاہ (دبئی) کا بھی نہیں ہوگا۔ آنے والے دن ہمارے لیے بہتری کی نوید لائیں گے، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ بندرگاہ بن رہی ہے کیونکہ چین کو بھی اس کی ضرورت ہے۔

وسعت اللہ خان نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ گوادر پاکستان کے اقتصادی مستقبل کی کنجی ہے۔ یہیں سے دودھ اور شہد کی وہ بل کھاتی نہر شروع ہوگی جو تین ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کر کے چین میں غائب ہونے سے پہلے پاکستان کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے پسماندگی کے آنسو بھی پونچھ لے جائے گی۔(ایسا کہا جاتا ہے)۔انہوں نے لکھا کہ، گوادر جادوئی شہر ہے۔ پرویز مشرف دور کی کوسٹل ہائے وے نے 22 گھنٹے کا سفر 8 گھنٹے کا کر دیا چنانچہ گوادر تا کراچی آتے جاتے پہلے کی طرح بال سفید نہیں ہوتے۔

گوادر ابھرتے مستقبل کا شہر ہے۔ ہمیں گوادر چاہیے اور ایک لاکھ گوادریوں کو پانی چاہیے۔ کیا آپ نے کبھی ایسے شہر کا تذکرہ سنا ہے جس کے تین اطراف سمندر، اطراف میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دو پلانٹ، 85 کلومیٹر پر ایک اور 200 کلومیٹر پرے دوسرا ڈیم ہو پھر بھی شہر پینے کے پانی کو ترسے اور میٹھا پانی بحریہ کے جہاز کراچی سے بھر بھر کے لائیں اور گوادری کہیں کہ اکنامک کوریڈور بے شک لے لو مگر پینے کا پانی تو دے دو۔

ان حالات میں گوادر سی پورٹ کی ترقی اور سی پیک منصوبہ کی کامیابی کے لیے لازمی ہے کہ وفاق کو لوکل حکومت سے مل کر ایک ایسی حکمت عملی تیار کرے جو مقامی شخص کے لیے فائدہ مند ہو مثلاً:
1۔ مقامی آبادی کے حقوق کا تحفظ

2۔ مقامی مزدوروں اور علاقے کے تعلیم یافتہ طلبا کو ایسی ٹریننگ دی جائے جو پورٹ کی ضروریات کے عین مطابق ہو۔

3۔ چین میں اسکالرشپس کے لیے مکران ڈویژن اور مقامی طلبا کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ اس وقت چین میں کئی طلبا اسکالرشپس کی بنیاد پر چینی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ ، آئندہ آنے والی مختلف ملازمتوں کے لیے ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں لیکن بمشکل دس فیصد کا تعلق بھی بلوچستان سے نہیں۔ لہٰذا بلوچستان کے بیروزگار نوجوانوں اور طلبا کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں۔

4۔ روزگار کا پہلا حق مقامیوں کو دینا چاہیے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو صرف سوئیپر اور نائب قاصد تک محدود نہیں کرنا چاہیے۔

5۔ زمین کی الاٹمنٹ اور ٹرانسفر کا فیصلہ صرف ضلعی حکومت کے اختیار میں دینا چاہیے۔

6۔ بیرونی سرمایہ کاری بلوچ کے شراکت کے ساتھ ہی ہو۔

7۔ مقامی ماہی گیروں کے مسائل کو حل کیا جائے۔

گوادر کو “دی گیٹ وے آف سنٹرل ایشیا’’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لیے تمام سپر پاور ممالک کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ آیئے اپنے حصے کا کردار اس کے لیے ادا کریں تاکہ اس میں بستے ہوئے ہماری حالت ان ریڈ انڈینز کی طرح نہ ہو جو امریکہ کے اصل باشندے ہوتے ہوئے بھی تمام تر حقوق سے محروم ہیں۔