محترم جناب !سردار اخترجان مینگل صاحب
میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی طالبہ ہو ں اورحال ہی میں اپنے ایک کزن کی شادی کے سلسلے میں گھروالوں کیساتھ کوئٹہ آنا ہوا۔ میرا ننیال یہاں کوئٹہ کے طوغی روڈ پر مقیم ہے۔ میرے نانا بطور سپاہی بلوچستان پولیس میں تعینات ہوئے اور 60 سال کی عمر تک بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اپنے خدمات سرانجام دینے کے بعد بطور ڈی ایس پی پولیس ریٹائرڈ ہوئے ۔انہوں نے اخبارات کے مطالعے کو اپنا معمول بنایاہواہے۔
کزن کی شادی کا عمل مکمل ہوا تو گھر کی صفائی کا مرحلہ آیا گھروالوں نے مجھے ایک کمرے کی صفائی کاکام دیا۔ یہ کمرہ میرے دوسرے کزن کا تھاجو ان دنوں بلوچستان یونیورسٹی سے میڈیا اینڈ جرنلزم میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے جرمنی گیا ہوا ہے۔ کمرے کی صفائی کے دوران میری نظرالماری میں کچھ پرانے اخبارات پر پڑھی جن میں سے ایک پرآپ کے بیان کیساتھ آپ کی تصویر لگی تھی ،یہ آپ کا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری کے نام کھلا خط تھاجس میں آپ نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی عدم بازیابی سمیت دیگر اہم مسائل کی نشاندہی کی تھی۔
اس کے ساتھ ایک اخبار میں بلوچستان میں افغان مہاجرین کے انخلاء سے متعلق سراوان ہاؤس میں ہونے والے قبائلی جرگہ سے رونامہ آزادی میں ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ الماری میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے2018ء کے انتخابی منشور کی ایک کاپی رکھی تھی۔ ان چیزوں کا بغور مطالعہ کرنا میرے لیے اب لازمی ہوگیا تھا۔ اگلی صبح جب میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی سیاسی تاریخ سے متعلق معلومات حاصل کرنے کیلئے ان کے کمرے کے دروازے پر پہنچی تو وہ کسی کواونچی آواز میں شاباشی دے رہے تھے۔
مجھے لگا کہ شاید اندر نانا کے ساتھ کو ئی اور موجود ہے جسے وہ شاباشی دے رہے ہیں میں دروازے کے باہر کھڑی رہی اس انتظار میں کہ اندر موجود شخص کمرے سے نکل جائے تو میں اندر جاکر نانا سے بی این پی کی سیاسی تاریخ سے متعلق دریافت کرونگی۔ مجھے باہر کھڑے اب آدھا گھنٹہ گزرچکا تھا کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔ اتنے میں نانا کمرے سے باہر نکلے مجھے دیکھ کر پوچھا خیر ہے یہاں کھڑی ہو میں نے کہا کہ اندر شاید آپ کیساتھ کوئی مہمان موجود تھا جس کی وجہ سے میں داخل نہیں ہوئی ،وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کمرے کے اندر لے گئے اور کہا یہاں تو کوئی نہیں ہے۔
میں نے حیرت سے ان سے پوچھا پر آپ شاباشی کس کو دے رہے تھے تو انہوں نے ہنستے جواب دیا کہ آج کے اخبار میں نوابزادہ لشکری رئیسانی کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ایک افغان مہاجر کے بلوچستان اسمبلی میں موجودگی کی مذمت کی ہے، یہ بی این پی کے رہنماء ہیں اس سے قبل وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے بھی وابستہ رہے ہیں اور سینیٹر سمیت بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوچکے ہیں بعد میں انہوں نے استعفیٰ دیا تھا۔
حال ہی میں انکا خاندان سانحہ درینگڑھ کے واقعہ سے شدید متاثر ہوا ہے اس سانحہ میں انکے چھوٹے بھائی سمیت 300 کے قریب لوگ دہشتگردوں کا نشانہ بن کر شہید کئے جاچکے ہیں۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ نانا جی مجھے بی این پی کی سیاسی تاریخ سے متعلق بتائیں جس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بی این پی کی تاریخ دکھوں سے بھری ہے تم جان کر کیا کروگی بعد میں وہ بتاتے گئے میں کاغذپرنوٹ کرتی گئی۔
اس میں بلوچستان سے ون یونٹ کا خاتمہ ،سردار عطاء اللہ مینگل اور سردار اختر مینگل کی حکومتوں کی برطرفیاں اور ان کی قید وبند کی صعوبتوں کا ذکر تھا۔ ہماری اس نشست کو اب تین گھنٹے بیت چکے تھے میں نے اخبارات میں شائع ہونے والے کھلا خط ، قبائلی جرگہ اور انتخابی منشور سے متعلق دریافت کیا۔ جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین نے جنرل (ر) ضیاء الحق کے دور میں یہاں کا رخ کیا جس کے بعد سے انکی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
افغان مہاجرین نے یہاں لوکل اور شناختی کارڈ حاصل کرکے نہ صرف ملازمتیں اختیار کی ہیں بلکہ ان کی ایک بہت بڑی تعداد کاروبار پر قابض ہے، اب وہ سینٹ اور بلوچستان اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہورہے ہیں جبکہ یہاں آباد سیٹلرز بدستور سیٹلرز کہلائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان افغان مہاجرین کو مردم شماری کا حصہ بننے سے روکنے کیلئے لشکری رئیسانی نے ایک قبائلی جرگہ طلب کیا تھا۔وہاں موجود بلوچ اور پشتون قیادت نے افغان مہاجرین کو بیدخل کرنے کا مطالبہ کیا۔ بی این پی ہمیشہ اپنے بیانات میں افغان مہاجرین کی موجودگی کی نشاندہی کرتی آئی ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں بی این پی نے اپنے منشور میں بلوچستان میں آباد سیٹلرز کو لوکل قرار دینے سے متعلق بلوچستان میں قانون سازی کرانے کا کہا تھا جس پرکوئی پیشررفت نہیں ہوئی ہے۔
لاپتہ افراد سے متعلق میرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول وعرض سے ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں جن کے لواحقین نے سردار اختر مینگل سے اپنی آخری امید یں وابستہ کی ہیں اور سردار اختر مینگل ان کی امیدوں پر پورا اتر نے سر توڑ کوشش کررہے ہیں دعا ہے اللہ تعالیٰ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کوششوں میں ان کو سرخ رو کرے۔
اب وہ یکدم خاموش ہوگئے کافی دیر تک میرے کسی سوال کا جواب نہیں دیا اور پھر کہنے لگے کہ میں نے 1970 کے انتخابات کے بعد کسی الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔جب 2018ء کے انتخابات میں نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی نے کوئٹہ سٹی سے الیکشن میں حصہ لیا تو میں نے اپنا غیر اعلانیہ بائیکاٹ ختم کرکے بی این پی کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا، امید تھی کہ بلوچستان کے لوگ جن مصائب سے گزررہے ہیں بی این پی ان کی نجات دہندہ بنے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔
سردار اختر جان مینگل کی نیت پر شک نہیں مگر عوامی نمائندے منتخب ہونے والے ان کے پارٹی رہنماؤں نے چھپ ساد رکھی ہے۔ 6 ماہ کے دوران بلوچستان اسمبلی میں افغان مہاجرین کے انخلاء ،لاپتہ افراد کی بازیابی ، سیٹلرز کو مقامی قرار دینے سمیت بلوچستان کے اہم امور پر انہوں نے بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں کوئی قرار داد پیش نہیں کی نہ اس عرصہ میں کوئی اخباری بیان جاری ہوا ہے۔
گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں افغان مہاجر کی موجودگی پر اراکین اسمبلی اس کی نشاندہی کرنے کی بجائے اپنی قرار دادوں پر عملدرآمد نہ کرنے کا شکوہ کرتے رہے۔ ثناء بلوچ نے محکمہ تعلیم سے متعلق ایک گھنٹے تقریر کی ،اس دوران اراکین میں نوک جھونک بھی ہوئی مگر افغان مہاجرین ثناء بلوچ کی انکھوں سے اوجھل رہے۔
نانا نے کہا کہ ایوان میں صوبائی وزیر کی جانب سے سردار وں پر تنقید کا جواب نواب اسلم رئیسانی نے ایک نواب اور میر اکبر مینگل نے ایک قبیلہ کا فرد ہونے کی ناطے دیا ،یہاں بھی یہ لوگ خاموش رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی این پی کا ہدف حاصل ہوچکا ہے اب اراکین اسمبلی فنڈز کے حصول کیلئے سرگرداں ہیں مجھے نہ جانے کیوں لگ رہا ہے کہ پشتونخوامیپ، نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بعد آئندہ پانچ سالوں میں بی این پی کو بھی لوگ اسی صف میں شامل قرار دیکر تنقید کے نشتر برسائیں گے۔
سمجھ نہیں آرہی کہ بی این پی لشکری رئیسانی کی حدتک رہ گئی ہے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ ہو ، سیاسی و سماجی سرگرمیاں ہوں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں جیسا کہ باقی پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سردار اختر جان مینگل صاحب میں ایک طالب علم ہوں مجھے اس صوبے کی سیاست سے صرف اس حدتک لگاؤ ہے کہ میرا ننیال یہاں ایک صدی سے مقیم ہے اور وہ یہاں کے سودو زیاں میں دیگر بلوچستان کے لوگوں کیساتھ شریک ہیں۔ آپ بلوچ قومی لیڈر ہیں آپ کو اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کو پارٹی منشور پر عملدرآمد کا پابند بنانا چائیے۔
یہاں عوام نے اراکین اسمبلی کو نہیں آپ کی پارٹی کو ووٹ دیا ہے جس کی پاسداری آپ نے کرنی ہے۔سردار صاحب میں کل جارہی ہوں اور امید ہے کہ جب دوبارہ یہاں آنے کا موقع ملے گا تو میرے نانا مایوس نہیں ہونگے۔ ( ہمیشہ آپ کی سلامتی کیلئے دعاگو رہونگی )