’’آج کل کے بچوں کی نانی اماں فیس بک ہے۔واٹس ایپ ان کا دوست اور انسٹاگرام ہمدرد ہے‘‘۔ دبئی میں میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک پاکستا نی ساتھی شکیل صاحب کی یہ بات مجھے آج بھی یا دہے۔ پہلے کہتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کر دینا ناممکن ہے مگر اب کہتے ہیں کہ گوگل میں دنیا کو بند کر دینا ممکن ہے۔ یہ اب حضرتِ گوگل کی کرامات ہیں یا فیس بک کا جادوجو سر چڑھ کر تو کیا چھت پر چڑھ کر بھی بولتا ہے۔
ہم نے تو سوچا تھا کہ یہ سہولیات آنے سے دردِدل دور ہو جائے گا مگر وہ تو جگر اور پِیتے میں چلا گیا ہے۔ ابھی فیس بک کی مدد سے ہم نے گورے کو امیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ واٹس ایپ ، انسٹاگرام اور ٹوئٹر نے بھی اپنا حصہ وصول کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنے کی قسم کھائی۔ جستجو کے مستقل قارئین! اس موضوع پر کالم لکھنے کی تجویز دینے والے نے بھی یہ تجویز واٹس ایپ کا استعمال کرتے ہوئے دی اور اس کی توثیق کرنے والے نے فیس بک کا سہا را لیا۔ آپ بھی شاید یہ کالم فیس بک یا واٹس ایپ پر پڑھ رہے ہونگے تو کیا کہتے ہیں کہ ہمار ی بلی ہمیں کو میاؤں۔
جب ہم نے فیس بک کا استعمال سیکھا تو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پرسیکھا۔تب انٹر نیٹ کا بیس روپے کا کارڈخریدتے تھے جو پندرہ منٹ بعد ختم ہو جاتا تھا۔ میسنجر پر گورے سے چیٹ کرتے تھے جو شاید ساتھ والے کیبن میں بیٹھا ہوتا تھا۔ اب تو بغیر تصویروں والی فیس بک فری میں بھی موبائل میں چلتی ہے تو کیوں نہ ہمارے نوجوان اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔بلکہ وہ تو ہر لمحہ اس مفت کی گنگا میں اشنان کرنے سے نہیں تھکتے۔
لڑکی کا چہر ہ غائب بھی ہو تو ایک سیکنڈمیں ہزار لائک آتے ہیں اور لڑکے نے اگر تھری پیس سوٹ بھی پہنا ہو اور پارلر والے کو ہزار روپیہ بھی دیا ہو تو اس کی تصویر پر شیدے میدے اور گامے فیدے کے علاوہ کسی کا لائیک آنا تو دور کی بات لوگ تو اس پر ٹھہرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ آخر اس فیس بک میں ایسی کیا بات ہے کہ ہر جوان کا فیس اب ٹکٹکی باندھے موبائل کو یوں دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے اسی موبائل سے کوئی ہیر برآمد ہونے والی ہو۔
ہیر تو برآمد نہیں ہوتی لیکن گھر والوں کا ہیرے اور جگر کا ٹوٹا ضرور اپنی نظر چیک کروانے پہنچ جاتا ہے۔جو قوم اپنی نظر کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ ہمارے نظریہ کی حفاظت کیا خاک کرے گی۔ نظر تک تو بات پھر بھی ہضم ہوتی ہے لیکن جب اس کے اثرات جسم کے باقی اعضا ء پر پڑتے ہیں تو حکیم صاحب کے اشتہارات کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
باقی تو سب کچھ چھوڑ دیجیئے جناب اب تو جہاد کی ابتداء اور انتہا بھی فیس بک پر ہوتی ہے۔ فائرنگ کے لیئے واٹس ایپ اور انسٹاگرام ہی کافی ہیں۔ ملک میں تو ڈیم بنے یا نہ بنے سوشل میڈیا پر اب تک کروڑوں بن چکے ہیں۔ اگر کسی کی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو لائکس سے بڑا پیمانہ کو ئی نہیں۔ اپنی تصویر فیس بک پر لگا کر تما م دوستوں کی فون پر منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ شیئر نہیں کرتے تو کم از کم لائک تو بنتا ہی ہے آخر کار صنف نازک کا پلڑا بھی اسی طرف جھکے گا جس طرف لائکس اور کمنٹس زیادہ ہوں۔ تصویر کا بیک گراؤنڈ تبدیل کروانے کے لیئے سینکڑوں روپے خرچ کرنے والی نئی نسل بغیر تصویر والی فیس بک استعما ل کرکے خو د کو جنتی سمجھتے ہیں۔
ایک صاحب نے تو حد ہی کردی ۔ اپنی تصویر فیس بک پر لگا کر اپنے سب دوستوں کو باری باری فون کیا اور کہا کہ یار تمہار ی تصویریں تو اگر کسی سمند ر خان کے ساتھ بھی ہوں تو میں لائک کر تا ہوں اور تم لوگوں نے میر ی تصویر معمر رانا کے ساتھ دیکھ کر بھی لائک نہیں کی۔ کچھ دیر بعد ان صاحب کو ایک دوست کی کال آئی کہ اس تصویر میں تم کہا ں پر ہو نظر تو آ نہیں رہے تو ان صاحب نے جواب دیا کہ نیا نویلہ چاند کب نظر آتا ہے۔ اس تصویر میں جو رکشہ نظر آرہاہے۔ اس کے اندر میں موجود ہوں باہر نکلنے کا ٹائم نہیں تھااسی لیے اندر بیٹھے بیٹھے ہی تصویر بنا لی اب بتاؤ بھلا اس محنت پر میر الائک اور شیئر تو بنتا ہے۔
تو جناب یہاں تک تو ہم نے باتیں کیں کہ سوشل میڈیا اب ہمارے اندر ہر وقت ایسے ہی دوڑ بھاگ رہا ہوتا ہے جیسے کہ خون۔ لیکن اس کا دوسر ا رخ بہت خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے اور اگر ہم نے اس پر قابو نہ پایا تو ہماری آئندہ نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونی والی معلومات کو چیک کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔ جو کسی کے ذہن میں آیا اس نے شیئر کردیا۔
یہی سلوک مذہبی معلومات میں بھی ہو رہا ہے اور نعوذبااللہ قرآن مجید اور احادیث کے صریحاً غلط تراجم بڑے دھڑلے کے ساتھ شئیر ہو رہے ہیں۔پہلے بچے وہ سیکھتے تھے جو والدین ان کو سِکھاتے تھے لیکن اب بچے وہ سیکھتے ہیں جو ان کو سوشل میڈیاسکھارہا ہے۔ اور ہمیں کوئی علم نہیں ہو تا کہ سوشل میڈیا سے وہ لوگ کیا سیکھ رہے ہیں۔مجھے کچھ عرصہ طلباء کے چند واٹس ایپ گروپ میں شامل رہنے کا اتفاق ہوا جو کہ چند دنوں بعد میں نے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ان گروپس میں جو مواد شےئر ہو رہا ہوتا تھا وہ یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔جس قسم کے وائس میسجز ہمارے معمار استعمال کررہے ہوتے تھے ان کو سن کر میں نے کانو ں کو ہاتھ لگائے۔ ہمیں کچھ بھی اندازہ نہیں کہ ہم اپنا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔ان گروپس سے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ تمام طالب علم تقریباً چوبیس گھنٹے ہی واٹس ایپ استعمال کر رہے ہوتے تھے ۔
اس کاواضح مطلب یہی ہے کہ ذہنی طور پر ان کی مکمل توجہ سوشل میڈیا پر ہے تو یہ لوگ کل کو اس معاشرے کے فعال شہری کیسے بنیں گے۔ یہ سب کچھ سوچنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اس بارے میں نہیں سوچ رہے تو ہماری آئند ہ نسلوں کا کیا مستقبل ہو گا آپ اس بارے میں بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
ہماری نئی نسل لائکس اور شےئر کے چکر میں ہر چیز فراموش کر چکی ہے۔ رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ عزتیں غیر محفو ظ ہو چکی ہیں۔ اگر ہم لوگ ان سب چیزوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنا حصہ تو ڈال سکتے ہیں۔ اگر ہم لوگ موبائل کا غیر ضروری استعمال تر ک کردیں اور اس کو صرف ایک ضرورت کی حد تک استعمال کریں تو اس کے اثرات ہمار ی نئی نسل پر بھی ضرور پڑیں گے۔
ٓہم لوگ جو بھی کر رہے ہوتے ہیں ہمارے بچے ان چیزوں کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں اگر ہم خود ہر وقت موبائل پر فیس بک اور واٹس ایپ کھول کر بیٹھے رہیں گے تو ہم اپنے بچوں کو کیسے روک سکتے ہیں۔ وہ لازمی طور پر خفیہ یا آپ کے سامنے وہی کریں گے جو وہ آپ کو کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ بچے باتیں کرنے سے نہیں سیکھتے بلکہ عمل سے سیکھتے ہیں۔ بچے وہی کرتے ہیں جو آپ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ اگر وہ عمل آپ کے سامنے کر رہے ہیں تو پھر بھی بہتر ہے لیکن اگر وہ یہ عمل آپ کی غیر موجودگی میں کر رہے ہیں تو یہ ان کے لیئے اخلاقی طور پر اور معاشرتی طور پر انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کا استعمال نہ تو سو فیصد غلط ہے اور نہ ہی سو فیصد درست۔ لیکن اس کا استعمال ضرورت کے تحت کرنا درست ہے۔ اگر تو آپ کو یہ کام کرکے کو ئی آمدنی مل رہی ہے تو بالکل درست ہے بصورتِ دیگر یہ وقت کا ضیاع ہے۔میرے خیال میں سوشل میڈیا لوگوں کو جوڑنے والا نہیں ہے بلکہ توڑنے والا ہے۔ اس جدید سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ ہماری سوچ صرف اور صرف لائکس اور شیئرز تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ اگر کو ئی فوت بھی ہو جائے تو اس خبر کو بھی آپ کو فیس بک پر لائک کرنا پڑتا ہے۔ آج کل اس کو سیانا سمجھا جاتاہے جس کو سوشل میڈیا اچھے طریقے سے استعمال کر نا آتا ہے۔ جبکہ ان سب خرافات کے آنے سے پہلے سیانا اس کو سمجھا جاتا تھا جو پورے خاندان کو ساتھ چلاتا تھا۔ جو یہ جانتا تھا کہ خوشی اور غمی کے موقع پر دوستوں اور عزیزوں کو کیسے بلاناہے اور ان کی خدمت کیسے کرنی ہے۔ جو دوسروں کے دکھ سنتا تھا اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔جو ساتھ مل کر رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔ جس کے صحن میں بچے اور بچیاں بلا تمیز کھیلتے تھے اور ان کو اس بات کاخوف نہیں ہوتا تھا کہ ہماری عزتو ں کو بھی کو ئی خطرہ ہو سکتا ہے۔ جس کے گھر میں ہمسائے بغیر گھنٹی بجائے داخل ہو جاتے تھے۔
اگر آج ہم اپنے آپ کو محدود کرلیں اور اس نام نہاد سوشل میڈیا سے اپنے بچو ں کو بچا لیں تو ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوار سکتے ہیں۔ جو خوشی آمنے سامنے بیٹھ کر بات کرنے سے مل سکتی ہے وہ آپ کو کبھی بھی موبائل پر یا سوشل میڈیا پر بات کرکے نہیں مل سکتی۔ سوشل میڈیا کے مثبت فوائد بھی بے شما رہیں لیکن وہ منفی استعمال کی موجودگی میں ہماری نظر سے اوجھل ہو چکے ہیں۔
بیرونی ممالک میں لوگ اپنی پور ی کمپنی کو فیس بک کی مدد سے چلاتے ہیں اور اس کے مثبت استعمال سے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔کوئی بھی چیز یا سہولت بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا بر ا بنا تاہے۔ اس کے بارے میں سوچنا عصرِ حاضر کی سب کی بڑی ضرورت ہے۔ اگر نئی نسل بچانی ہے تو ان کی راہنمائی اپنے عمل سے کریں۔