|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2019

کینسر کے مرض میں مبتلا دس سالہ حمل ظفر آغا خان ہسپتال کراچی میں زیرعلاج ہیں۔ ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے خطیر رقم کے مطالبے نے ان کے والد ظفر اکبر اور دیگر ساتھیوں کو سوشل میڈیا پہ تعاون کی اپیل کرنے پر مجبور کیا۔ اپیل کے بعدبڑے پیمانے پر چندہ مہم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

بلوچستان کے کونے کونے سے چندہ جمع ہونی شروع ہو گئی۔ دس روزہ مہم کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہسپتال انتظامیہ کی ڈیمانڈ کردہ رقم 70لاکھ روپے جمع کرانے میں کامیاب ہوئے۔ رقم پوری ہوتے ہی ظفر اکبر نے چندہ مہم کے خاتمے کا اعلان کیا اور سوشل میڈیا پہ جاری اپنے پیغام میں کہا کہ ’’ اُن دوست احباب، بہن بھائیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں تعاون کیا اور رقم جمع کرانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اسی امید کے ساتھ میں اِس مہم کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں کہ آپ دیگر مستحق افراد اور مریضوں کی داد رسی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے‘‘۔

ظفر اکبر ایک شاعر ہیں شاعری سے کون کماتا ہے گزر بسر وہ اپنے چھوٹے پیمانے کے جاب سے کرتے ہیں۔ اب بھلا چھوٹے پیمانے کے جاب سے وہ کینسر جیسے مرض کا مقابلہ کیسے کرپاتے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شاعر، ادیب، آرٹسٹ اور ان کے خاندان کا علاج معالجہ اور کفالت کا ذمہ حکومت خود اٹھا لیتی کہ وہ غمِ روزگار اور غمِ معاش سے آزاد ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتیوں کو کام میں لاتے۔

جہاں حکومت کے پاس ایسی پالیسی نہ ہو اور سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں ایسے مسائل شامل ہی نہ ہوں تو وہاں شاعر ،ادیب یا آرٹسٹ عام آدمی کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہی کچھ ظفر اکبر نے کیا دل پر بھاری پتھر رکھ کر انہوں نے اپنے چاہنے والوں کے نام پیغام بھیجا۔ چاہنے والوں نے اسے مایوس نہیں کیا دس روزہ مہم کے دوران خطیر رقم جمع کرانے میں کامیاب ہوئے جس کی امید کم ظاہر کی جا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ نیت صاف منزل آسان ۔

اگر انسان چاہے تو کیا کچھ نہیں کر سکتا یہی کچھ نوجوانوں نے حمل کے لیے کیا جس کے ثمرات مل گئے۔ یہ تو قدرتی امر ہے کہ درد انسان کو ایک دوسرے کے قریب تر کر دیتا ہے۔ ایک تو پورے بلوچستان کے گھر گھر کا نوحہ اور سوشل میڈیا پہ پھیلنے والی حمل ظفر کی تصویر نے سب کو اپنی طرف راغب کیا اور پھر سب نے حمل کے درد کو اپنا سمجھ کر مہم کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔

مہم چلی اورمہم کامیاب ہوگئی، یہ قصہ یہیں ختم۔ لیکن ان ہزاروں ،لاکھوں حمل کا کیا ہوگا جو غربت کی قید میں بیماری سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ کیا اس مہم کا مقصد یہی تھا کہ آپ ایک حمل کی زندگی بچائیں ،نہیں جناب بالکل نہیں۔ اب تو اس مہم کو اور زور و شور سے جاری رہنا چاہیے۔ابھی وہ منزل کہاں آئی جس کا تصورکرکے آپ نے مہم کا آغاز کیا تھا۔ذرا کہانی کو ریوائنڈ کریں تو بیک پر کئی چہرے گھومتے نظر آئیں گے۔

نوربی بی، ریحان بلوچ، شہہ مرید کی روح سے کیا ہوا وعدہ بھول گئے ان کی ہنستی مسکراتی تصویروں کے ساتھ ہم نے کیا عہد وپیمان کیا تھا یہی کہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ لیکن پھر کیا ہوا قوتِ ارادی متزلزل ہوئی ہم نے جدوجہد کا راستہ ترک کیا اجتماعی سوچ سے نکل کر انفرادی سوچ کی جانب گامزن ہوئے۔

ذرا سوچیں ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پہلا قدم اٹھتے ہی پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھنے لگتے ہیں اسی کو اپنی کامیابی سمجھ کر زندگی بھر کے لیے اسے گلے لگاتے ہیں۔ اب جبکہ حمل ظفر کیس نے آپ سب کو جدوجہد کی راہوں پہ گامزن کیا ہے تو کیوں نہ قدم بہ قدم آگے چلتے رہیں۔اس بات پہ تو ہم سب کا اتفاق ہے کہ چندہ مہم اجتماعی مسائل کا حل نہیں۔تو کیوں نہ ایک غافل ریاست کو جگا کر اسے اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرائیں ،کیوں نہ مطالبہ کیا جائے کہ مفت تعلیم اور صحت کی فراہمی ایک ریاست کی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری وہ اپنے کندھوں پر اٹھائے۔ کیوں نہ آواز اٹھائیں ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف، جن کی جعلی دوائیاں امراض و اموات میں اضافہ کر رہی ہیں مگر ریاست پھر بھی خاموش ہے۔

مضمون ختم کرنے جا رہا تھا کہ شاعر دوست میر ساگر کا پیغام موصول ہوا کہ کینسر کے مرض میں مبتلا شاعر سعید تبسم مزاری کی بیٹی نشتر ہسپتال ملتان میں زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بے بس شاعر کے پاس فقط شاعری کا خزانہ ہے وہ خزانہ کینسر کے علاج کا کام نہیں آتا ،پنجاب کے ایوانوں تک اس کی آواز پہنچ نہیں پاتی۔ اگر اس کے لیے مہم چلائیں یا آواز اٹھائیں تو شاید سعید مزاری اپنی بیٹی کو بچا پائے۔ذہن الجھنوں کا شکار ہوا اب سعید کی بیٹی کوکیسے بچایا جائے۔ زندگی ہر طرف سوال لیے کھڑی تھی جبکہ موت اتنی ہی تندہی سے حملہ آور ۔

حمل کیس سے واضح ہوا کہ سوشل میڈیا کو بطور ٹول استعمال کرکے کیوں نہ ہم ایسی مہم چلائیں کہ سب کی بھلا اور سب کی خیر ہو۔ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو۔ تعلیم و صحت سیاسی پارٹیوں کی منشور کا حصہ بنے۔ تو بھلا جدوجہد کیوں کر ختم ہو بلکہ جاری رہے۔اسی سے نور بی بی ، ریحان اور شہ مرید کی روح کو تسکین ملے گی اسی سے حمل جیسے بچوں کی مسکراہٹیں بحال ہوتی رہیں گی۔اور اسی سے ہی سعید مزاری کی بیٹی ہماری روشن مستقبل کی نوید بنے گی۔