کوئٹہ: کوئٹہ سے اغواء ہونیوالا نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل شیخ 48روز بعد بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔ ڈاکٹر ایکشن کمیٹی بلوچستان کا کہنا ہے کہ مغوی کی بازیابی میں حکومت کا کوئی کردار نہیں، اغواء کاروں نے پانچ کروڑ روپے تاوان لیکر کر ڈاکٹر کو کراچی میں چھوڑا جبکہ صوبائی وزیرداخلہ ضیاء لانگو کا مؤقف ہے کہ ڈاکٹر کراچی سے نہیں بلکہ چمن سے بازیاب ہوئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق نیورو سرجن پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم خلیل شیخ کو کوئٹہ کے علاقے شہباز ٹاؤن سے 13 دسمبر 2018ء کو نامعلوم کار سوار اغواء کاروں نے اس وقت اغواء کرلیا تھا جب وہ نجی کلینک سے فارغ ہوکر اپنے گھر جارہے تھے۔
ان کے اغواء کے خلاف بلوچستان کی ڈاکٹرز تنظیمیں احتجاج پر تھیں۔ کوئٹہ کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈیڑھ ماہ سے او پی ڈیز اور دیگر شعبوں میں ڈاکٹر ز بائیکاٹ پر تھے۔ وزیرداخلہ بلوچستان ضیاء لانگو کا کہنا ہے کہ بدھ کی صبح نامعلوم اغواء کار مغوی ڈاکٹر کو پاک افغان سرحدی علاقے چمن میں چھوڑکر فرار ہوگئے ہیں۔چمن کے مقامی صحافی نور زمان اچکزئی نے بتایا کہ ڈاکٹر خلیل ابراہیم کو علی الصبح چمن کے مال روڈ پر نامعلوم اغواء کاروں نے چھوڑا جہاں سے وہ ایک ٹیکسی لیکر کوئٹہ کیلئے روانہ ہوئے۔
ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں جناح ٹاؤن پروفیسر کالونی میں واقع گھر تک انہیں بحفاظت پہنچایا۔ زندہ سلامت گھر پہنچنے پر اہلخانہ انتہائی خوش ہوئے۔مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔اہلخانہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھی آئے۔ ڈاکٹرابراہیم خلیل کی حالت کمزور اور لاغر تھی۔
میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دو دن سے سوئے نہیں اور گزشتہ رات کو انہیں اغواء کاروں نے اتنی نشہ آور دوا کھلائی ہے جس کی وجہ سے وہ مکمل ہوش و حواس میں نہیں۔ بات کرنیمیں بھی دقت ہورہی ہے۔انہیں طبی امداد اور آرام کی ضرورتہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی بازیابی کیلئے کوششیں کرنیوالے تمام افراد کا وہ شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اللہ کرے یہ برائی معاشرے سے ختم ہو۔
اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ایسا کسی کے ساتھ دوبارہ نہ ہو۔ ڈاکٹرخلیل ابراہیم کے بھتیجے نے بتایا کہ ہم نے یہ انچاس دن بڑے کرب میں گزارے ہیں چچا کے زندہ سلامت آنے پر انتہائی خوش ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو چمن میں چھوڑا گیا اور بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کو کراچی میں چھوڑا گیا جہاں سے وہ کم از کم دس گھنٹے کا سفر طے کرکے کوئٹہ پہنچے ہیں۔ اطلاع ملنے پر ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ، ڈاکٹر ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ظاہر خان مندوخیل اور ساتھی ڈاکٹروں کی بڑی تعداد ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے گھر پہنچے اور ان کی خیریت دریافت کی۔
ملاقات کے بعد سول ہسپتال کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹرزایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ظاہر خان مندوخیل نے بتایا کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ابراہیم خلیل شیخ اپنے گھر پہنچ گئے ہیں اس سلسلے میں کوششوں میں ہمارا ساتھ دینے پر میڈیااور وکلاء کے ہم مشکور ہیں۔ دوران قید ابراہیم خلیل شیخ کو انتہائی پرتشدد اور گھمبیر صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے ہمیں بتایا کہ اغواء کاروں نے انہیں بیس کلو کے برابر وزنی لوہے کے زنجیروں میں باندھ کے رکھا۔قید کے دن انتہائی سخت دن گزرے۔ہم اس عملے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ظاہر مندوخیل نے کہا کہ ہمیں بتایا جارہا ہے تھا کہ ڈاکٹر کو اغواء کار شاید سرحد پار کہیں لے گئے ہیں وہ غلط معلومات ہیں تھیں اور یہ بات جھوٹ نکلی۔ ڈاکٹرخلیل ابراہیم نے بتایا کہ انہیں کل شام کو کراچی میں ایک مقام پر اغواء کاروں نے رہا کیا اور انہیں پانچ ہزار روپے دے کر کہا کہ دیوار کی طرف رخ کرکے سو تک گنتی کریں۔ اس کے بعد وہ ٹیکسی لیکر کوئٹہ آئے۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھے اور ساری رات سوئے رہے۔
صبح انہیں ہیلپر ہسپتال کوئٹہ کے قریب جگایا گیا اس کے بعد انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو گھر کا پتہ بتایا۔ڈاکٹر ایکشن کمیٹی کے چیئرمین کاکہنا تھا کہ ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو کسی نے بازیاب نہیں کرایا۔ انہوں نے صاف صاف بتایا کہ وہ پیسے دے کر آئے ہیں اوراچھی خاصی بڑی رقم یعنی پانچ کروڑ روپے کے لگ بھگ تاوان ادا کیا۔ کسی نے اس سلسلے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ہم اس پر سخت ناراض اورسخت پریشان ہیں۔
ہماری ڈاکٹرز کمیونٹی ابھی تک پرسکون نہیں ہوئی۔ ہمیں ابھی تک کوئی سیکورٹی پلان نہیں دیا گیا۔ڈاکٹروں کا پہلا مطالبہ ڈاکٹر ابراہیم کی بحفاظت بازیابی کا تھا جوحکومت پورا نہیں کرسکی۔مغوی تاوان ادا کرکے آیا اور انچاس دنوں تک تشدد کا سامنا کیا۔ ہمارا دوسرا مطالبہ تھا کہ ڈاکٹروں کو سیکورٹی کا ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں اطمینان سے اپنی خدمات انجام دیں اور اپنے کام اور گھر بغیر کسی خوف کے آاورجاسکے۔
اس حوالے سے بھی حکومت نے اب تک کوئی کام نہیں کیا۔ ہم حکومت کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے اپنا کردار ادا نہیں کیا اب حکومت کو آگے آنا ہوگاتاکہ خدانخواستہ کسی اور ڈاکٹر کو ان حالات کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ ڈاکٹروں کو ان کے اطمینان کے مطابق سیکورٹی فراہم کرنا ہوگی۔ ہم حکومت کو ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ آج جس طرح ہم نے صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔
آئندہ شاید اس طرح کا ماحول نہ ہ کیونکہ جس طرح ڈاکٹر زکمیونٹی نے ہم دباؤ ڈالا کہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ایمرجنسی تک بند کرکے سخت احتجاج کیا جائے مگر ہم نے سیکورٹی اداروں کی پریشانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا اقدام نہیں اٹھایا اور صبر سے کام لیا۔ہم پرسکون رہیاور اپنی برادری کے غم و غصے کو ہم نے ہی جذب کیا۔ ہم نہیں سمجھتے کہ آئندہ کسی ڈاکٹر کے ساتھ ایسا کوئی غلط عمل ہوا تو ہم نہیں سمجھتے کہ پھر ہم اپنی ڈاکٹرز برادری کو اس طرح سنبھال سکیں گے۔
آئندہ ایسا ہوا تو خدشہ ہے کہ ڈاکٹر برادری ہمارے قابو سے باہر ہوجائے گی اور شاید بہت سخت دن حکومت کو دیکھنا پڑے۔ حکومت کو اس بات کو پیش نظر رکھنا ہوگا کہ ہمارے لوگ انتہائی اقدام پر نہ چلے جائیں۔ آج کے حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت ڈاکٹروں کے جان و مال کے تحفظ کے مسئلے کو حل کریں۔ ایسا نہ ہوا کہ معاملات ہمارے دسترس سے باہر ہوجائے اور ڈاکٹرز انتہائی اقدام پر چلے جائیں۔
ہم نہیں چاہتے کہ ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے کیونکہ پھر لوگوں کی کوئی ان کی داد رسی کیلئے کوئی نہ ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہسپتالوں میں او پی ڈیز کی بندش اور احتجاج کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہم احتجاج کیلئے مجبور ہوئے کیونکہ خود پریشانیوں کا سامنا کرنے والے دوسروں کی مدد نہیں کرسکتے۔ اب او پی ڈیز کھولنے یا احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ جمعرات کو ڈاکٹر تنظیموں کی جنرل باڈی کے اجلاس میں کیا جائیگا۔ہم ڈاکٹرز کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی اقدام نہیں کرسکتے۔
حکومت کی جانب سے احتجاج کرنے پر ڈاکٹر کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال کے جواب میں ڈاکٹر زایکشن کمیٹی کے چیئرمین نے کا کہنا تھا ک ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ ڈاکٹراپنے ذاتی یا گروہی مفاداور مراعات کی نہیں بلکہ صرف سیکورٹی کی بات کررہی تھی۔ ہماری یہ آواز حکومت کے خلاف نہیں بلکہ اغواء کاروں کے خلاف تھی۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ حکومت نے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کرکے اغواء کاروں کی حوصلہ افزائی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ ہم میڈیا اور وکلاء برادری کے بھی مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمارا ساتھ دیا کیونکہ یہ صرف ڈاکٹروں نہیں بلکہ شہر کے تمام لوگوں کا مسئلہ ہے اس لیے ہم ایک پیج پر ہیں۔ وکلاء نے بھی ہائیکورٹ میں آئینی درخواست دائر کی ہے کہ ڈاکٹرز کو تحفظ دیا جائے جس پر ہم ہم بے حدمشکور ہیں۔ ہم حکومت سے سیکورٹی پلان لیں گے۔
پریس کانفرنس میں موجود وکیل رہنماء علی کاکڑ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انہوں نے ایک سماجی کارکن کی جانب سے ڈاکٹروں کے احتجاج اور تحفظ سے متعلق بلوچستان ہائیکورٹ میں دائر درخواست کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ احتجاج آئینی حق ہے مگر یہ قانون کے تحت کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دس سالوں میں 93 اسپیشلسٹ ڈاکٹربلوچستان چھوڑ چلے گئیہیں۔ 33 ڈاکٹروں کو اغواء کیا گیا جبکہ چھ ڈاکٹرکو اغوا کرنے کی کوشش ہوئی۔ سوال یہ بنتا ہے کہ ڈاکٹر کیوں نشانہ پر ہیں۔ ایک ہسپتال میں چالیس چالیس پچاس پچاس ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔ ان کے مالک کو کیوں نہیں اغواء کیا جاتا۔ یہ صرف پیسے کی خاطر اغوا کا معاملہ نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ بلوچستان کو اچھے ڈاکٹروں سے محروم کیا جائے۔
یہ سوچی سمجھی سازش ہے کہ طب جیسے مقدس پیشے سے وابستہ افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے اسی لیے ہم نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا ہے تاکہ حکومت بلوچستان، چیف سیکریٹری، سیکریٹری ڈاخلہ اور آئی جی پولیس آکر ڈاکٹرز کی سیکورٹی سے متعلق پلان شیئرکریں۔
مغوی ڈاکٹر خلیل ابراہیم 5کروڑ تاوان کی ادائیگی کے بعد کراچی سے بازیاب
وقتِ اشاعت : January 30 – 2019