|

وقتِ اشاعت :   February 5 – 2019

کوئٹہ :  صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے پروفیسرابراہم ارمان لونی کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت مرحوم کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ کسی ایک ادارے یا فرد کو واقعہ کا ذمہ دار نہیں ٹہراسکتے واقعہ سے متعلق ہونے والی تحقیقات سے عوام کو باخبر رکھا جائیگا ۔

گزشتہ روز ملک دشمن عناصر کی جانب سے فساد برپا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ریاست نے ماں کا کردار اداکرتے ہوئے پابندی کے باجود منظور پشتین اور انکے ساتھیوں کو پروفیسر ابراہیم لونی کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی اجازت دی ۔ 

گزشتہ روز سول سیکرٹریٹ میں ایڈیشنل آئی جی پولیس چوہدری منظور سرور، اسپیشل سیکرٹری حافظ طاہر، ڈپٹی ایم ایس سول ہسپتال ڈاکٹر زبیر خان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے میڈیا کوارڈینٹر عظیم کاکڑ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو نے مزید کہا کہ واقعہ سے متعلق میری ابتدائی معلومات کے مطابق امن وامان کے پیش نظر پولیس نے وہاں جمع سینکڑوں افراد کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے دھرنے کے منتظمین سے دھرنا ختم کرنے کی درخواست کی جس پر دونوں جانب سے ہاتھا پائی ہوئی اور اسی دوران پروفیسر ابراہیم ارمان لونی زمین پر گر پڑے اور وہاں موجود لوگوں سے پانی مانگاوہاں سے انہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا ۔

جائے وقوعہ پر میڈیا اور پی ٹی ایم کے کیمرے نصب تھے اگر ان کے پاس واقعہ سے متعلق کوئی بھی ویڈیو کلپ موجود ہے تو واقعہ کی تحقیقات سے متعلق پیش رفت کیلئے ہمارے ساتھ شیئرکریں ۔ 

انہوں نے کہا کہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے پارلیمانی اراکین نے ان پر عائد پابندی کے باجود بلوچستان میں زبردستی داخل ہوکراس لیے ریاستی رٹ کو چیلنج کیا تاکہ ریاست ان کیخلاف کوئی سخت قدم اٹھائے اس کے باوجود ریاست نے ماں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میری ضمانت پر انہیں نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی اجازت دی جس پر میں اپنے تمام سیکورٹی فورسز اور اداروں کو سلام پیش کرتاہوں جنہوں نے ریاستی قوانین میں نرمی لاکر صوبے میں منصوبہ کے تحت برپا ہونے والے فساد کو کنٹرول کیا ۔ 

انہوں نے کہا کہ دنیا میں جہاں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں قاتلوں تک پہنچنے کیلئے سیکورٹی اداروں کو کام کرنے دیا جاتا ہے مگر افسوس ہمارے یہاں بازار بندکرکے ہڑتال اور دھرنے پر بیٹھ کر حکومت سے سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ میرے خیال میں وہ سیاسی جماعتیں جنہوں نے ہڑتال کی حمایت کی ہے ۔

انہوں نے ریاست کیلئے آسانی پیدا کرنے کی بجائے اس کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے میرا ان سے سوال ہے کہ انہوں نے ڈی آئی جی آفس لورالائی پر ہونے والے دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونے والے دس سیکورٹی اہلکار کی غائبانہ نماز جنازہ ادا اور شہدا کے سوگ میں دکانیں کیوں بند نہیں کیں جب ریاست شہادتیں دیتی ہے تو ان کا کوئی ردعمل نہیں آتا جب ریاست کیخلاف مہم شروع ہوتی ہے تو وہ اس کا حصہ بنتے ہیں ۔ 

جس طرح ارمان لونی اس ریاست کا ایک شہری ہے اسی طرح پولیس اہلکار ایک شہری ہے ۔ یہاں کچھ لوگ اپنے بیرونی آقاؤں کے کہنے پر کوئی شیشہ ٹوٹ جاتا ہے تو فوراً ریاست کو موردالزم ٹہرا کر اس کیخلاف ہرزہ سرائی شروع کردیتے ہیں ۔ سیکورٹی فورسز پر ہاتھ اٹھانے والے ایک مرتبہ یادگاشہداء پشاور اور یاد گار شہدا کوئٹہ کاضرور دورہ کرنا چائیے ان شہدا نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قیام امن کو یقینی بنایا ہے ۔ان شہدا نے شہادتیں دشمن کے عزام کو خاک میں ملانے کیلئے دی ہیں ان کے آگئے جھکنے کیلئے نہیں ۔ 

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا یہ کھیل بلوچوں کیساتھ بھی کھیلا گیا جس میں انہیں دونوں جانب سے لاشوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست سخت حالات سے گزررہی ہے اور دشمن اسے شدید کمزور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ایسے میں والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہیں وہ سیاست کے نام پر ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کے راستہ پر نہیں جائیں ۔ 

سول سوسائٹی ، تاجر برادری اور صحافیوں کو بھی چائیے کہ وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں ۔ انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی مخالف مہم کا حصہ بننے والوں کیخلاف سختی سے نمٹاجائیگا پاکستان بنانا ریاست نہیں اس کے قوانین صدر پاکستان سے لیکر ایک عام شہری پر لاگو ہوتے ہیں ۔

نواب ایاز جوگیزئی کے بیان سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر صبح شام الزامات لگاتی رہتی ہیں نواب صاحب اتنے سادہ نہیں جب ارمان لونی نے انہیں اپنی جان کو درپیش خطرے سے متعلق آگاہ کیا تھا تو ان کے پاس ضرور کوئی ریکارڈ ہوگاگزشتہ روز میں نواب ایاز جوگیزئی سے مسلسل رابطہ میں تھا اور میری ذمہ داری پر منظور پشتین اور انکے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی بجائے انہیں نہ صرف نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت دی بلکہ انہیں اسٹنٹ کمشنر کی نگرانی میں کے پی کے حکومت کے حوالے کیا گیا ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ واقعہ کا مقدمہ کسی ایک فریق کے کہنے پر درج نہیں کیا جاسکتا تحقیقات مکمل ہونے پر مقدمہ درج کیا جائیگا ۔ ہماری ذمہ داری قاتل تک پہنچناہے اس کو چھپانا نہیں واقعہ سے متعلق اگر کسی کمیشن کی ضرورت پڑی توضروربنائیں گے ۔ 

اس موقع پر ڈپٹی ایم ایس سول ہسپتال ڈاکٹر زبیر خان نے کہا کہ میڈیا جلد بازی سے کام نہ لے ہم ابتدائی مراحلے میں ہیں پورسٹ مارٹم کی رپورٹ میں آنے والی چیزوں پر مرحلہ وار کام کیا جارہا ہے ۔ حتمی رپورٹ آنے تک کوئی موقف نہیں دے سکتے ۔ واقعات کے محرکات تک پہنچنے میں ایک ماہ یا اس سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے ۔