|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2019

کوئٹہ: بزرگ دانشور، بانی ڈیلی بلوچستان ایکسپریس ، روزنامہ آزادی لالا صدیق بلوچ کی آج پہلی برسی منائی جارہی ہے، لالہ صدیق بلوچ 6فروری 2018ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

لالا صدیق بلوچ کراچی کے علاقے لیاری میں پیداہوئے، جنہوں نے طالب علمی کے زمانے سے ہی مظلوموں کیلئے آواز بلند کی، 60ء کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا حصہ بنے اور اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا ان دنوں نیشنل عوامی پارٹی اپنے عروج پر تھی جس میں بلوچستان کے اہم سیاسی شخصیات میرغوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیربخش مری اور شہیدنواب اکبرخان بگٹی شامل تھے۔

لالا صدیق بلوچ 72ء کی دہائی میں گورنر بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کے پریس سیکریٹری بھی رہ چکے تھے، ،نیپ کی حکومت کے خاتمے کے بعد نیپ کی لیڈر شپ کے ساتھ لالا صدیق بلوچ بھی پابند سلاسل ہوئے رہائی کے بعد لالا صدیق بلوچ ذاتی طور پر سیاست سے الگ ہوئے ، انگریزی صحافت میں ملک کے مشہوراخبار ڈیلی ’’ڈان‘‘ سے وابستہ بھی رہ چکے تھے۔

ڈان نیوز سے جب ریٹائرڈ ہوئے تو انہوں نے 1989ء میں کراچی سے ایک انگریزی اخبارسندھ ایکسپریس کی اشاعت شروع کی۔16090ء کی دہائی میں انہوں نے کوئٹہ سے ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کی اشاعت شروع کردی جس کے دس سال بعد انہوں نے روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی۔لالا صدیق بلوچ نے ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کے باوجود روزنامہ آزادی کی اشاعت کو ضروری سمجھا۔

اس کی اہم وجہ بلوچستان میں ناخواندگی ہے ہمارے یہاں انگریزی ریڈرنہ ہونے کے برابرہے کیونکہ لالا صدیق بلوچ نے جس طرح اپنی سیاسی زندگی میں بلوچ اور بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کی اسی طرح انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعے بلوچستان کا مقدمہ لڑا۔160بلوچستان کے بنیادی سیاسی، معاشی، سماجی مسائل سے عوام کو آگاہ کر نا ضروری تھا جو اردو اخبار کی اشاعت سے ہی ممکن تھا ۔

اس لئے انہوں نے روزنامہ آزادی کی بنیاد رکھی اور اس طرح لالا صدیق بلوچ نے اپنے قلم کے ذریعے بلوچستان کے اہم مسائل کوروزنامہ آزادی کے ذریعے اجاگر کیا۔روزنامہ آزادی میں خصوصی رپورٹ، خبروں اور اداریہ کے ذریعے انہوں نے بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کیلئے تجاویز پر مبنی تحاریر لکھے جس کی وجہ سے عوامی حلقوں میں روزنامہ آزادی کو زبردست پذیرائی ملی۔

لالا صدیق بلوچ کو صحافتی خدمات پرصدارتی ایوارڈسے نوازا گیا،لالا صدیق بلوچ کی صحافتی دیانتداری کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں جنہوں نے بلوچستان کے اہم سیاسی، معاشی اور سماجی حالات پر بلاخوف وخطر لکھا ۔

لالا صدیق بلوچ کو ’’سفیر بلوچستان‘‘ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ انہوں نے قومی وبین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کرتے ہوئے بلوچستان کے مسائل کواجاگر کیا جس کی مثال آج بھی سیاسی، صحافتی، علمی سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دیتے ہیں۔ لالا صدیق بلوچ تین کتابوں کے مصنف رہ چکے ہیں جس میں سے دو کی اشاعت ہوچکی ہے جبکہ تیسری کتاب عنقریب شائع ہوگی جس میں بلوچستان کی سیاسی ،معاشی اور سماجی مسائل پر تفصیلی طور پر لکھا گیا ہے جس میں وسائل اور مسائل کے حل پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔