|

وقتِ اشاعت :   February 15 – 2019

کوئٹہ: جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ این آر او اور پس پردہ فیصلوں نے ہمیشہ ملک کو نقصان پہنچایا۔احتساب پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں بلا امتیاز ہونا چاہیے۔کوئٹہ میں امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق ہاشمی اور دیگر عہدے داروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی انتہائی زوال پذیر ہیں۔لوگوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔

موجودہ حکومت ماضی کی طرح قرضے لینے، شرح سود میں اضافہ کرنے اور عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کے سواء کوئی وڑن نہیں رکھتی۔ خود انحصاری کے بغیر غیرملکی قرضوں سیملک کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ گیر اور بجلی کا بحران سنگین، قیمتیں عوام کیلئے ناقابل برداشت ہوگئی ہیں۔ 

روزگار، خوراک اور توانائی کے مسائل کے حل کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ضروری مسائل پر وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ ایڈہاک ازم کی بنیاد پر حکومت چلائی جارہی ہے۔ اسمبلیوں کو بازیچہ اطفال بنادیا گیا ہے ۔وزیراعظم اور حکومت میں شامل کرایے کے وزراء عوام کو ریلیف دینے کی بجائے بلیک میلنگ میں مصروف ہیں جس سے جمہوریت اور پارلیمانی نظام کیلئے مشکلات اور خطرناک بڑھ گئی ہے۔

حکومتی اداروں میں سیاسی مداخلت بند کرنے کے دعوے کئے گئے مگر میرٹ کی خلاف ورزی بدستور جاری ہے۔گوادر اور سی پیک کے اہم ترین منصوبوں کا آغازہے مگر عوام کے بنیادی اور ماہی گیروں کے روزگار کے قدیم مسائل کو حل نہیں کیا جارہا۔ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی کوشش درست نہیں۔ وزیراعظم کے دعوے کے باوجود بلدیاتی نظام میں اصلاحات کا کوئی نقشہ کار پیش نہیں کیاگیا۔ 

وفاقی اور صوبائی حکومتیں بہتر بلدیاتی نظام تشکیل دے کر ایک ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے۔ اس طرح نہ کیا گیا تو جماعت اسلامی بھر پور عوامی مہم چلائے گی اور ضرور پڑی تو سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرے گی۔جماعت اسلامی کے رہنماء کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کو سیاسی شہید نہیں ہونے دینا چاہتی۔ 

ہم چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو وقت دیا جائے تاکہ ان کی تمام صلاحیتیں بے نقاب ہو۔ وقت اور حالات کے مطابق تمام اپوزیشن جماعتیں خود اکٹھی ہوجائیں گی اور اپوزیشن کا اپنا بھر پور کردار ادا کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ این آر او دینے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پہلے بھی این آر او کسی سیاسی قوت یا جماعت نے نہیں دیا اور آج بھی کوئی این آر او دینا موجودہ حکومت کے بس کا روگ نہیں۔ 

این آر او کی سیاست ،محلاتی سازشوں اور پس پردہ فیصلوں نے ہمیشہ اس ملک کو نقصان پہنچا۔ کسی کو مقدس گائے نہیں بنانا چاہیے۔ پسند و ناپسند کی بنیاد پر احتساب کرنے کی بجائے پاناما ، قرضے معاف کرانے اور ناجائز اثاثے بنانے والوں کی فہرست میں شامل تمام افراد کو بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں بد عنوانی کے خاتمے کیلئے نیب کی کوئی فعالیت نہیں۔ 

وفاق اور چاروں صوبوں میں قانون کے مطابق احتساب کے عمل کی تکمیل ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ اتحاد وقت اور حالات کے مطابق بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ مجلس عمل میں شامل جماعتیں ملی یکجہتی کونسل میں بھی موجود ہیں جس کے پلیٹ فارم سے بہت سے مسائل اور اپنی بنیادوں پر کام ہورہا ہے۔ لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ کشمیر اور افغانستان کا مسئلہ فیصلہ کن مرحلے پر ہے۔ 

ہمارا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ اور قومی قیادت کو واضح وڑن کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اس مرحلے پر کوئی بھی غلطی پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کیلئے خطرناک ہوگی۔ افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے خود دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ساہیوال ، لورالائی اور قبائلی علاقوں میں پیش آنیوالے واقعات سے ریاست اور عوام میں دوریاں پیدا ہورہی ہیں۔ اندھے اختیارات کسی کے پاس نہیں ہونے چاہیے کیونکہ اس سے عوام اور فوج کی امن کیلئے دی گئی قربانیاں ضائع ہورہی ہیں۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی قیادت دوبارہ بیٹھ کر نیشنل ایکشن پلان کا دوبارہ جائزہ لیں۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کے نام لینے والی حکومت میں قادنیت کی سرپرستی ہورہی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ بد تہذیبی کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ بد انتظامی اور بد زبانی کی انتہاء ہے۔ 

ان کا کہنا تھاکہ حج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے اس معاملے پر وزیراعظم اور وزراء مفتی کرام بنے ہوئے ہیں ریاست کے دینی فریضے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حج کے سرکاری کوٹے میں اضافہ کرکے اخراجات میں کمی لائی جائے۔