بلدیاتی نظام جمہوریت کی استحکام و مضبوطی کیلئے بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے اسے نچلی سطح پر فروغ دینے میں معاون ثابت ہوگی۔اس نظام میں عوام کو جمہوری حق رائے دہی استعمال کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔خصوصاً اس نظام کے توسط سے عوام کی تمام تر بنیادی و عوامی اور ضروری و اجتماعی مسائل نہ صرف حل کئے جاتے ہیں۔ بلکہ انہیں بنیادی سہولیات عوامی امنگوں کے مطابق فراہم کیے جاتے ہیں۔
اور اختیارات نچھلی سطح پر عوام کو منتقل کرکے انہیں اپنے محلے،گلی،گاؤں، وارڈ،یونین کونسل،ٹاؤن، میونسپل کمیٹی،میونسپل کارپوریشن،تحصیل اور ضلع سے جمہوری انتخابی عمل کے ذریعے اپنا نماہندہ منتخب کرنے کا حق بھی دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے اپنا با صلاحیت و تعلیم یافتہ اور بہتر نماہندہ خود منتخب کرسکے۔ جو ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔انہیں بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے اہل ہوں۔اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنے کی بھر پور قدرت بھی رکھتے ہوں۔
اسی طرح ایک منظم و موثر بلدیاتی نظام مجموعی طور پر ملکی و صوبائی اور ضلعی و علاقائی تعمیر وترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مگر بد قسمتی سے ملک بالخصوص بلوچستان میں رائج بلدیاتی نظام انتہائی ناقص ہو کر عوامی مسائل کو حل کرنے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکا ہے۔ کیونکہ اس نظام میں نماہندوں کے اختیارات اور فنڈز انتہائی محدود ہیں۔اور اہلیت میں تعلیمی قابلیت کی شرط بھی مکمل طور پر نظرانداز ہے۔اسی طرح طریقہ انتخاب میں بھی کافی مسائل ہیں۔
تاہم اس میں بہت سے بنیادی و لازمی ترامیم و اصلاحات کی ضرورت ہے۔ البتہ موجود بلدیاتی منتخب نماہندوں بالخصوص لوکل گورنمنٹ 27جنوری کو اپنی مدت پوری کرچکی ہے۔ صوبائی حکومت نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010 میں ممکنہ ترامیم و اصلاحات،نئے حلقہ بندیوں اور نئے یونین کونسلز،میونسپل کمیٹیز و کارپوریشنز کے قیام کے پیش نظر 28 جنوری کو بلدیاتی حکومت ختم کرنے کا اعلان کیامگر بلوچستان ہائی کورٹ نے بلدیاتی نماہندوں کو بحال کردیا۔
اورہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق بلدیاتی نماہندے مزید کچھ وقت کیلئے کام کرسکتے ہیں۔ بلوچستان میں سابق حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے میں کامیاب تو ہو ئی۔مگر اس نظام میں بنیادی و ضروری ترامیم و اصلاحات نہ کرسکی۔جس سے اس نظام کی ثمرات عوام کو میسر نہ ہوسکیں۔اور نہ ہی بلدیاتی نماہندوں کے اختیارات اور فنڈز کا تعین کیا گیا۔نہ ہی نماہندوں کے لیے تنخواہیں و اخراجات کے لیے رقم مختص کی گئی۔لیکن عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے بلدیاتی نماہندوں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے۔مگر نماہندے فنڈز اور اختیارات بالخصوص تنخواہوں کا رونا روتے رہے۔
اسی طرح بلوچستان میں بلدیاتی نماہندوں اور حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر رہی۔ اور سابق حکومتوں نے صوبے میں اس نظام میں بہتری و اصلاحات لانے پر توجہ دینے سے قاصر ہو کر اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا ۔ بہر حال،خیبر پختونخوا میں بلدیاتی حکومت کی کارکردگی اس لیے دیگر صوبوں کی نسبت کافی بہتر رہی کہ وہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے نہ صرف بلدیاتی نظام پر توجہ مرکوز کی بلکہ نماہندوں کے فنڈز اور اختیارات کا تعین کرکے انکی تنخواہوں و اخراجات کے لیے رقم مختص کرنے کے ساتھ انہیں کام کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔
تاہم موجودہ حکومت معرض وجود میں آتے ہی وفاقی حکومت نے نہ صرف بلدیاتی انتخابا ت وقت پر کرانے کا اعلان کیا بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا و بلوچستان میں خصو صی طور پر نئے بلدیاتی نظام لا نے کا عندیہ دیا۔ نئے بلدیاتی نظام میں نہ صرف نماہندوں کے اختیارات و فنڈز اور طریقہ انتخاب کا تعین کیا گیا۔بلکہ اہلیت تعلیمی قابلیت کے ساتھ مشروط کیا گیا۔وفاقی حکومت کے اعلان کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں ضلعی ناظم کے لیے تعلیمی قابلیت ایم اے( سیاسیات) ہوگی جو ضلع بھر کے عوام سے براہ راست ووٹ لے کر منتخب ہوگا۔ اور اسکے اختیارات صوبائی کابینہ کی ممبر کے برابر ہونگے۔اسی طرح دو یونین کونسلز پر مشتمل یونین ناظم اور نائب ناظم ہونگے۔
جو براہ راست دو یونین کونسلز کے عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہونگے۔ اور یونین ناظم کیلئے تعلیمی قابلیت بی اے، اسی طرح نائب ناظم کے لیے تعلیمی قابلیت ایف اے ہوگی۔ خاص طور پر ہر یونین کونسل سے صرف تین جنرل کونسلر براہ راست ووٹ لے کر منتخب ہونگے۔ان کی تعلیمی قابلیت میٹرک ہوگی پھر انہیں براہ راست عوام کے مسائل سن کر حل کرنے کے اختیارات حاصل ہونگے۔البتہ یوتھ،کسان اور خواتین کونسلر کی نشست ختم کی جائے گی۔
تاہم اگر نئے بلدیاتی نظام میں کسان وخواتین کی خصوصی نماہندگی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہاں سے ایک آئینی پیچیدگی جنم لے گی کیونکہ آئین آف پاکستان کے آرٹیکل 32 میں یہ الفاظ واضح طور پردرج ہے۔کہ” مملکت متعلقہ علاقوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔اور ایسے اداروں میں کسانوں، مزدورں، عورتوں کو نماہندگی دی جائیگی۔
” اس لیے بہتر عوامی مفاد میں نئے بلدیاتی نظام میں کسانوں اور عورتوں کی خصو صی نماہندگی کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مزید بہتر بنایا جائے۔ نئے بلدیاتی نظام کا سنتے ہی بلوچستان کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔نئی امیدیں وابستہ ہوگئیں۔عام لوگوں کے ذہن میں ترقی و خوشحالی کے خواب سج گئے۔کیونکہ اب انگوٹھاچھاپ نماہندوں سے جان چھوٹ جائے گی۔اور ان کی جگہ تعلیم یافتہ نوجوان میدان عمل میں آئیں گے۔
انہیں مکمل طور پر اپنے فنڈز اور اختیارات کا ادراک ہوگا۔اور انہیں اپنے حلقہ کے مسائل اور مشکلات کا احساس ہوگا۔اس طرح اس نئے نظام سے نہ صرف صوبے کی ترقیاتی صحت پر مثبت اثر پڑے گی بلکہ اس سے مجموعی طور پر ملکی ترقیاتی صحت پر بہتر و مثبت اور نمایاں اثرات مرتب ہونگے۔
مگر بدقسمتی سے صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کے اعلانات کو نہ صرف نظرانداز کیابلکہ مطلوبہ وقت میں درکار صوبائی اسمبلی میں “لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010میں ترامیم و اصلاحات/ بلدیاتی ترامیمی بل” لانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔اسی طرح صوبائی حکومت کی عدم توجہی کے باعث بلوچستان کے عوام کی نئے بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے تمام خواب چکنا چھور ہوگئے۔
علاوہ ازیں، صوبائی حکومت نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات نومبر میں کرانے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے وقت مانگنے کی استدعا کی مگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبائی حکومت کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسے صوبے میں وقت پر انتخابات کرانے کیلئے تعاون کرنے کی اپیل کی۔مزید یہ کہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ عوامی فلاح و بہبود اور بہتر ی کے لیے پیش ہونے والے ترامیمی بلز بروقت اسمبلی میں بحث کیلئے پیش کرکے ممبران اسمبلی سے اتفاق رائے لیاجائے تاکہ عوامی مفاد عامہ کے انتہائی ضروری و لازمی نوعیت کے بلز التوا کا شکار نہ ہوں اور مجموعی طور پر عوام کی فلاح و بہبود متاثر نہ ہو۔
اب اگرچہ صوبائی حکومت بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان کے شیڈول کے مطابق کرے گی تو بلوچستان میں سابق بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات ہونگے۔تاہم انتخابات کا مرحلہ اگر سابق نظام کے تحت بخوبی انجام پائے گی۔تو اس کے بعد صوبائی حکومت بلدیاتی نماہندوں کے فنڈز اور اختیارات کے تعین کیلئے ممبران اسمبلی کی اکثریتی اتفاق رائے سے ضروری ترامیم و اصلاحات کے ذریعے بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کیلئے بھرپور کوشش کرے۔
نماہندوں کو فنڈز اور اختیارات دےئے جائیں۔ان کی تنخواہوں کا تعین بھی کیا جائے کیونکہ موجودہ بلدیاتی نماہندے فنڈز اور اختیارات کے ساتھ پانچ سالوں کے دوران تنخواہوں سے بھی محروم رہے ہیں۔اسی طرح بلدیاتی نماہندوں پر صوبائی حکومت و نیب کی کھڑی نگرانی بھی ہونی چاہئیے اور انکی انسپیکشن بھی ہونی چاہئیے۔تاکہ بلدیاتی نماہندوں کی نگرانی کی جا سکے۔
تاکہ عوامی فنڈز عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔اختیارات کا ناجائز استعمال نہ ہو۔اور فنڈز کے ذاتی استعمال کو روکا جا سکے۔اسی طرح مدت ختم ہونے پر نماہندوں کا آڈٹ بھی کیا جائے۔ عوامی فنڈز میں خوردبرد کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والے نماہندوں کو ایک مخصوص مدت تک نااہل قرار دے کر آنے والے کسی بھی انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کیلیے قانون سازی کی جائے۔
بہرحال تمام اختلافات کے باوجود ملک کے عوام معترف ہیں کہ ملک میں پہلی مرتبہ مشرف حکومت نے بہتر بلدیاتی نظام لا کر تمام صوبوں میں یکساں طور پر رائج کرنے میں کامیاب ہوئے۔جس سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے مگر بدقسمتی سے مشرف حکومت کی جانب سے برسراقتدار پارٹی”ق لیگ” کی فعالیت کیلیے پورے نظام کو دھاؤ پر لگا کر اسے فعال بنانے اور قومی خرانہ پر ہاتھ پھیرنے کی بھرپور کوشش کرکے کروڑں روپے راتوں رات نماہندوں پر تقسیم کی جانے لگیں۔
جس سے ایک طرف قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور دوسری طرف نماہندوں کو کرپشن کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ اور نماہندوں کے اختیارات اور فنڈز بالخصوص ترقیاتی اسکیموں کو جانچنے کے لیے کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیاگیا۔ اسی طرح بلدیاتی نماہندوں نے کرپشن کے سمندر میں غوط خوری کرکے راتوں رات کروڑ پتی بن گئے۔ لیکن عوام پینے کے صاف پانی کے بوند بوند کو ترستے رہے۔اس سے عوام میں نماہندوں اور اس نظام کے خلاف غلط تاثر بن گیا۔ تاہم اس کے بعد آنے والی وفاقی حکومتوں نے اس نظام کی اہمیت و افادیت کو پس پشت رکھ کر اسے بحال رکھنے کی بجائے مکمل طور پر نظرانداز کیاجس کا خمیازہ آج تک عوام بھگت رہے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں ایک بہتر اور یکساں بلدیاتی نظام لا کر نافذ کیا جائے تاکہ تمام صوبوں کے عوام یکساں طور پر اس کی افادیت سے مستفید ہوسکیں۔اگرخدانخواستہ ایسا ممکن نہیں ہوتا تو بلوچستان میں صوبائی حکومت وسیع تر عوامی مفاد میں ایک بہتر بلدیاتی نظام لا ئے یا پھر دیرینہ عوامی مطالبہ کو عملی جامہ پہناکر موجود بلدیاتی نظام میں بنیادی و ضروری ترامیم و اصلاحات کراکے اسے کارآمد بنا کر بلوچستان کے محلوں،گلیوں،دیہاتوں، یونین کونسلوں بالخصوص تحصیلوں و اضلاع کو عملی بنیادوں پر حقیقی تعمیر و ترقی کی جانب گامزن کریں۔