|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2019

کوئٹہ : ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای پی آئی) کے صوبائی کوارڈینیٹر راشد رزاق نے کہاہے کہ انجیکٹ ایبل پولیو ویکسین کا10روزہ مہم پیر سے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ ،پشین اور قلعہ عبداللہ میں شروع ہوگا ۔

مہم کے دوران بلوچستان بھر میں 732585بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے جبکہ انہی میں سے 681304 بچوں کو حفاظتی ٹیکے بھی لگائے جائیں گے، مہم میں2686 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جو فکسڈ اور آؤٹ ریچ سائٹ پر بچوں کی ویکسینیشن کریں گی، جن میں 1193 ویکسینٹر، 1193 ٹیم اسسٹنٹ اور 300 کمیونٹی موبلائزر شامل ہیں۔

یہاں جاری بیان میں انہوں نے کہاہے کہ پولیو کا وائرس اب بھی ہمارے ماحول میں موجود ہے جس کی وجہ آبادی کی بہت زیادہ نقل وحرکت ہے۔ یا ایسے بچے ہیں جو کہیں نہ کہیں قطرے پینے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ 

اپنے بچوں کو پولیو سے بھرپور تحفظ فراہم کرنے کے لیے بلوچستان کے حساس قرار دئیے گئے اضلاع کوئٹہ، پشین اور قلع عبداللہ میں 18 فروری سے پولیو کی خصوصی مہم شروع کی جارہی ہے جس میں پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کے ساتھ ساتھ 4 ماہ سے 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کاٹیکہ بھی لگایا جائے گا۔ 

اس مہم کا مقصد بچوں میں پولیو کے خلاف بھرپور قوت مدافعت پیدا کرنا ہے۔ کیونکہ پولیو کے ٹیکے بچے میں دگنی قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں۔ اس مہم کے دوران بلوچستان بھر میں 732585 بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے جبکہ انہی میں سے 681304 بچوں کو حفاظتی ٹیکے بھی لگائے جائیں گے۔ 

مہم میں2686 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں جو فکسڈ اور آؤٹ ریچ سائٹ پر بچوں کی ویکسینیشن کریں گی، جن میں 1193 ویکسینٹر، 1193 ٹیم اسسٹنٹ اور 300 کمیونٹی موبلائزر شامل ہیں۔ان کاکہناتھاکہ پولیو کا ٹیکہ ، پولیو کے قطروں کے ساتھ اضافی طور پر ان علاقوں میں متعارف کروایا جا رہا ہے جہاں پولیو کی منتقلی بہت تیزی سے ہو رہی ہے۔

تاکہ پولیو وائرس کے خلاف ممکنہ حد تک بہترین تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس طرح پولیو کے خاتمے کی طرف بڑھا جائے۔ تاہم، اگر صرف ٹیکہ دیا جائے تو اس سے اس طرح کا آنتوں کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا جس طرح کا قطروں سے حاصل ہوتا ہے۔چناچہ صرف ٹیکے سے ویکسین کیے گئے بچے وائرس کے پھیلانے کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ 

ٹیکے بچے کو دگنا تحفظ تو فراہم کرتے ہیں لیکن وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قطروں کا جاری رکھنا بہت ضروری ہے تاکہ ہمارے ماحول سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہو جائے اور بچوں پر سے پولیو سے متاثر ہونے کے خدشات ختم ہو جائیں۔ 

ہمارے ماحول میں پولیو وائرس نہ ہونا ہی اصل میں ہماری کامیابی ہے جو اس بات کی ترجمانی کرتا ہے کہ اب ہمارے بچے پولیو سے بالکل محفوظ ہو چکے ہیں۔ اس لیے یاد رکھیں کے ٹیکے پولیو کے خلاف اضافی قوت مدافعت پیدا کرتے ہیں لیکن کسی صورت بھی پولیو کے قطروں کا متبادل نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے کہاکہ سال 2018 میں بلوچستان میں پولیو کے 12 کیسز رپورٹ ہوئے جس میں 4 کیسز بلوچستان کے ضلع دکی سے رپورٹ ہوئے۔ جبکہ سندھ سے 1، خیبرپختونخواہ سے 2 اور خیبرپختونخواہ ٹرائبل ایجنسیز سے 6 کیسز رپورٹ ہوئے۔ سال 2019 میں پولیو کے 4 کیس رپورٹ ہو چکے ہیں جس میں خیبرپختونخواہ سے 1 ، خیبرپختونخواہ ٹرائبل ایجنسیز سے 2 جبکہ پنجاب سے 1 کیس رپورٹ ہوا ہے۔ 

جبکہ افغانستان میں 21 بچے پولیو کی وجہ سے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوئے ہیں۔ لہذا آپ صحافی حضرات کے ذریعے تمام والدین سے پرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اس خصوصی مہم میں کے دوران اپنے پانچ سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے اور 4 ماہ سے 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو انجکشن ضرور لگوائیں اور پولیو ٹیموں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ 

والدین کے ساتھ ساتھ ہر طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد مثلا علمائے دین، ڈاکٹرز، سیاسی اور قبائلی سربراہان اور میڈیا سے بھی التماس ہے کہ اپنے بچوں کے صحت مند مستقبل کے لیے اپنا بھرپور تعاون فراہم کریں۔