|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2019

کوئٹہ: سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے زبانوں کے معدوم ہونے کے تاثرکوپروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قوموں کے درمیان ہم آہنگی کیلئے ریاست مادری زبانوں کی اہمیت کو تسلیم کرے ۔ مادری زبانوں میں ابتدائی تعلیم کو لازمی قرار دینے کے قانون پر عملدرآمد نہ ہو نے کیخلاف عدالت سے رجوع کرینگے ۔ مادری زبانوں میں لکھنا اورپڑھنا ہماری پارٹی کا سلوگن ہے ۔ 

گزشتہ روزبلوچی لبزانکی دیوان کے زیراہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تقریب کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کا مزید کہنا تھاکہ بدقسمتی سے ریاست کوان زبانوں سے نفرت ہے جن کو تسلیم کرنے سے پاکستان نہ صرف مضبوط بلکہ مزید مستحکم بھی ہوگا کیونکہ قومیں اپنی زبانوں سے محبت کرتی ہیں اور ان کی زبانیں ان کیلئے ہرچیزسے بالاترہیں۔

بلوچستان کے لوگ آج بھی حبیب جالب اور فیض احمد فیض کو اپنا شاعر مانتے ہیں اور وہ لوگ جو ماضی قریب تک ان سے نفرت کرتے تھے وہ آج ان کے اشعار پڑھ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے وقت ہمارے لئے پیچیدگیاں پیداکی گئیں ۔ عوام کے درمیان محبتوں میں اضافہ کیلئے ان کے درمیان پیدا ہونے والے فرق کو ختم کرنا چائیے ۔یہاں زبانوں کیساتھ نہ ریاست انصاف کررہی ہے نہ ہم نے خود اپنے ساتھ انصاف کیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں بلوچستان اسمبلی میں بلوچی،براہوئی،پشتو،پنجابی،ہزارگی،سرائیکی اورسندھی زبانوں میں ابتدائی تعلیم کو لازمی قرار دینے سے متعلق نہ صرف قانون سازی کی گئی بلکہ بلوچی ،براہوئی اور پشتو زبانوں میں نصاب بھی تیار کیا گیا تھا مگرافسوس ایک مخصوص ذہنیت نے اس پر عملدرآمد میں رکاوٹ بن کربلوچستان اسمبلی کے معزز ایوان کی توہین کی ہے جس کیخلاف عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہ ریاست کی جانب سے مادری زبانوں کو تسلیم کرنے سے قوموں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی۔ سرپرستی نہ ہونے پرشعراء ذہنی تناؤ میں آکراپنی کتابیں نذآتش کرتے ہیں،مخیرحضرات اس جانب توجہ دیں انہوں نے کہا کہ ریاست ادب سے تعلق رکھنے والے افراد کوبطورامداد1،1لاکھ روپے بھی اداکرے توان کے بہت سے مسائل حل ہوں گے۔ 

جب ہم دیکھیں گے کہ ہماری بلوچی اوربراہوئی زبانوں کواہمیت دی جارہی ہے تواس پر ہمیں فخرمحسوس ہوگا،زبانوں کودبانے سے یہ اتنے ہی زیادہ زورپکڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی میں کوئی زبان نہیں مرے گی،بلوچی اوربراہوئی بولنے والے لوگ پوری دنیا میں موجودہیں۔

انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کے دن کے موقع پرہم نے اس عزم کااعادہ کیاہے کہ ہمارے تمام ساتھی بلوچی،براہوئی اورپشتو سمیت دیگرمادری زبانوں میں نہ صرف بات کریں گے بلکہ ہم اپنی اپنی مادری زبانوں میں لکھنے اورپڑھنے کوبھی ترجیح دیں گے اوریہی ہماری پارٹی کا نعرہ بھی ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آغاگل کا کہناتھا کہ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ چھوٹی زبانوں پرآج تک کوئی کام نہیں ہوااقوام متحدہ کوخوش رکھنے کیلئے ہم سال میں ایک مرتبہ ہیومن رائٹس اورایک مرتبہ مادری زبانوں کاعالمی دن مناکرسمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیاہے ۔

انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کی ترقی وترویج کیلئے مربوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔عرفان احمد بیگ نے کہا کہ مہرگڑھ قدیم انسانی تہذیبوں کی ماں کہلاتی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان پوری دنیا میں ایک منفر د حیثیت رکھتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں 3سال کے عمر سے بچوں کومادری زبانوں میں تعلیم دینے کانظام رائج ہے۔ راحت ملک نے کہا کہ کوئی زبان ایسی نہیں جسکی ماں نہ ہو اورکوئی ایسی قوم نہیں جس کی سرزمین نہ ہو مادری زبانوں کا عالمی دن قوموں کی شناخت کوتسلیم کرنے کادن ہے۔ مادری زبان فرد،سماج اوراس کے بولنے والوں کے درمیان احساس اہمیت کوجگاتی ہے۔

نورخان محمدحسنی نے کہا کہ مادری زبان میں انسان آسانی سے اپنے خیالات اورسوچ وفکر کی ترجمانی کرسکتاہے بلوچستان میں زبانوں کی ترقی کیلئے حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔نواب اکبرخان بگٹی کے دورحکومت میں مادری زبانوں میں تعلیم کیلئے قانون سازی کی گئی ،گزشتہ دورحکومت میں ڈاکٹر مالک بلوچ نے بھی مادری زبانوں میں بنیادی تعلیم کیلئے اقدامات اٹھائے تاہم ان کے بعد یہ کام تاخیر کاشکارہوا۔ 

اس موقع پر نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جان محمد بلیدی، یار جان بادینی، ڈاکٹر اسحاق بلوچ، سنگت رفیق بلوچ، عمران بلیدی، منور پانیزئی،حنیف کاکڑ، عزیزی سرپرہ، نصیر شاہوانی، طاہرہ بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔